Follw Us on:

“یہ برطانویوں کو اسلام سے بچنے نہیں دیں گے” نماز پڑھتے مسلمانوں پر برطانوی انتہاپسندوں کا اعتراض

سوشل ڈیسک
سوشل ڈیسک
Prayer offering
فائل فوٹو / گوگل

مغربی دنیا میں اسلام کے خلاف تشدد اور تعصب کا رویہ پایا جانا ایک عام بات ہے، لیکن اب سوشل میڈیا کے اس دور میں اسلام مخالف کمپینز بھی چلائی جارہی ہیں جن کا مقصد مذہبی عقائد اور تعلیمات کے بارے میں شکوک و شہبات پیدا کرنا اور غیر مسلم افراد کو اسلام سے دور رکھنا ہے۔

ایسا ہی واقع سکاٹ لینڈ کے سب سے بلند پہاڑ ‘بین نیوس’ پر پیش آیا ہے جہاں بڑی تعداد میں مسلمان نماز ادا کر رہے تھے اور انتہا پسند انہیں نفرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔

سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ‘برٹن فرسٹ’ نامی اکاؤنٹ سے ویڈیو شیئر کی گئی جس میں ‘بین نیوس’ پہاڑ پر چند مسلمان نماز ادا کر رہے ہیں اور اردگرد بڑی تعداد میں لوگ کھڑے نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے نمازیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

‘برٹن فرسٹ’ نامی اکاؤنٹ سے شیئر ہونے والی اس ویڈیو کی کیپشن میں لکھا کہ ” یہ سب غلبے کی بات ہے، برطانیہ میں 3 ہزار سے زائد مساجد موجود ہیں جن میں وہ (نماز کے لیے) جا سکتے ہیں، ہمارے شہروں کی عوامی گلیاں قابو میں کر لینا کافی نہیں، انہیں برطانوی دیہی علاقوں پر بھی قبضہ کرنا ہے، یہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک برطانوی عوام اسلام پسندی سے بچ نہ سکیں”۔

اسی ٹوئٹ کو بشریٰ شیخ نامی پاکستانی صآرف نے دوبارہ شیئر کیا اور کیپشن میں لکھا کہ “یہ کامل ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے، برطانوی مسلمان خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، پھر ایک لمحے کے لیے رک کر اللہ کا شکر ادا کررہے ہیں، پرامن نمازیوں سے تو شیطان ہی پریشان ہوتا ہے”۔

اس ٹوئٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ ” ہر کسی کو چاہیے کہ وہ اپنے مقامی فٹبال کلب سے رابطہ کرے اور پوچھے کہ اس سال ایسٹر کی تقریب اسٹیڈیم میں کب منعقد ہو رہی ہے، پھر جب وہ جواب دیں کہ ایسی کوئی تقریب نہیں ہو رہی، تو آپ اگلا سوال یہ کر سکتے ہیں کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو رمضان میں اسٹیدیم میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دے رہے؟” اس پر ایک صارف نے جواب میں کہا کہ “بھائی اگر آپ چاہو تو ایسٹر کی تقریب کے لیے اسٹیڈیم بُک کر سکتے ہو”۔ اس جواب پر اسی صارف نے دوبارہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مقامی مسجد والے اسٹیڈیم بک نہیں کرتے بلکہ فٹبال کلب انہیں مفت میں دعوت دیتے ہیں”۔

اس ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اور صارف نے لکھا کہ “میں ایک مرتبہ برطانیہ کے سب سے بلند پہاڑ، بین نیوس، پر چڑھنے گیا، جب میں آدھے راستے پر ایک آبشار تک پہنچا تو وہاں بڑی تعداد میں غیر ملکی لوگوں کو دیکھا جو ہر جگہ عبادت کر رہے تھے، مجھے اپنے ملک سے محبت ہے اور اسے ایسی حالت میں دیکھنا ہمارے دلوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے، یہ دیوانگی روکنے اور دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کا وقت ہے”۔

ایک صارف نے ناقدین پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ “اوہو یہ تو واقعی بہت خوفناک بات ہو گئی کہ لوگوں کو اپنی عبادت پرامن طریقے سے کرتے ہوئے آپ کو دیکھنا پڑا، اب آپ اس صدمے کا سامنا کیسے کریں گے؟” ایک صارف نے اس پر جواب میں لکھا کہ “تمام دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں کی ہیں” اسی صارف نے اس جوابی جملے پر لکھا کہ ” آپ بیوقوف ہیں”۔

ایک اور صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ “یہ بالکل بھی ٹھیک نہیں، میں اس سے متفق ہوں، یہ غلبے کی بات ہے، آپ جانتے ہیں کہ یہ خوبصورت منظر کیوں ہے؟ کیونکہ یہ تیسری دنیا سے اچھوت ہے، افسوس کہ یہ بدل جائے گا، تیسری دنیا درآمد کریں اور تیسری دنیا بنیں”۔

Tweet
ایکس صارفین کے تبصرے / ایکس

ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ ” کیا ہمیں برطانیہ میں مسلمانوں کی عبادت کو برداشت کرنا چاہیے جبکہ کئی مسلم ممالک میں غیر مذہبی خیالات یا عقائد کا اظہار محفوظ نہیں؟ ایک غیر مذہبی شخص کے طور پر میں اس رویے اور مساوی آزادی پر سوال اٹھاتا ہوں”۔

ایکس پر جاری یہ بحث مختلف خیالات اور عقائد کے ٹکراؤ کو ظاہر کرتی ہے، کچھ افراد عوامی مقامات پر مذہبی رسومات کو برداشت کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ کچھ کھلے دل سے اس کی حمایت کر رہے ہیں، تاہم برطانیہ جیسے آزاد اور متنوع معاشرے میں مذہبی آزادی اور رواداری بنیادی اصول ہیں جنہیں برقرار رکھنا ضروری ہے۔ سب کے لیے برابری اور احترام ہی حقیقی ہم آہنگی کی بنیاد ہے۔ اب قابلِ غور امر یہ ہے کہ برطانوی حکومت کس طرح سوشل میڈیا پر چلتے بحث و مباحثے کو کنٹرول کرتی ہے۔

یہ پاکستان میٹرز کے سوشل میڈیا ڈیسک کی پروفائل ہے۔

سوشل ڈیسک

سوشل ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس