Follw Us on:

لندن میں دو ہزار سال پرانی رومن دیواروں کی تصاویر جوڑ کر حیرت انگیز فن پارہ دریافت

حسیب احمد
حسیب احمد
The art is revealing more about the affluence of the area
میوزیم آف لندن آرکیالوجی ( ایم او ایل اے) کے ماہرین کے مطابق یہ دیواریں پہلی یا دوسری صدی عیسوی میں تعمیر کیے گئے ایک رومن ولا کا حصہ تھیں۔ ( فوٹو: بی بی سی)

لندن کے جنوبی علاقے ساؤتھ وارک میں دریافت ہونے والے ایک پرتعیش ‘رومن ولا’ سے تعلق رکھنے والے دو ہزار سال پرانے وال پینٹنگز کے ہزاروں ٹکڑوں کو جوڑ کر ماہرین آثارِ قدیمہ نے ایک نایاب اور مکمل تصویری خاکہ تیار کیا ہے۔

میوزیم آف لندن آرکیالوجی ( ایم او ایل اے) کے ماہرین کے مطابق یہ دیواریں پہلی یا دوسری صدی عیسوی میں تعمیر کیے گئے ایک رومن ولا کا حصہ تھیں، جو اس وقت کے تیزی سے ترقی پاتے شہر “لوندینیئم” کے مضافات میں واقع تھا۔ ایم او ایل اے کے محقق ہان لی نے اسے “لندن میں اب تک دریافت ہونے والا سب سے بڑا وال پینٹنگ کا مجموعہ” قرار دیا۔

Bearing their names is found.
یم او ایل اے کے محقق ہان لی نے اسے “لندن میں اب تک دریافت ہونے والا سب سے بڑا وال پینٹنگ کا مجموعہ” قرار دیا۔ ( فوٹو: بی بی سی)

دریافت شدہ (فرسکوز) دیوار پر بنی پینٹنگز کم از کم 20 دیواروں پر محیط تھے، جن پر پھولوں، پھلوں، پرندوں، موسیقی کے آلات اور دیگر باریک نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی پینٹنگ تقریباً 5 ضرب 3 میٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، جس کے نچلے حصے میں گلابی اور اوپری حصے میں زرد اور سبز رنگوں کی پرتیں دکھائی دیتی ہیں۔

ہان لی نے بتایا کہ یہ دنیا کا سب سے مشکل جِگسا پزل تھا کیونکہ پلاسٹر کے یہ ٹکڑے بہت نازک تھے اور غلط جوڑنے سے خراب ہو سکتے تھے۔ ایک ٹکڑے پر لاطینی زبان میں “Fecit” لکھا ہے، جس کا مطلب ہے “یہ بنایا ہے”، لیکن جس حصے پر فنکار کا نام ہونا چاہیے، وہ ابھی تک دستیاب نہیں ہو سکا۔

پینٹنگز میں انگور کی بیل جیسا دکھائی دینے والا ایک پودا بھی شامل ہے، جسے ماہر نباتات نے مقامی پودا “مسلٹو” قرار دیا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ رومن فنکار کلاسیکی موضوعات کو مقامی انداز میں ڈھالتے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پینٹنگز کا موازنہ یورپ کے دیگر مقامات پر ملنے والے فن پاروں سے کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ کام ایسے ماہر فنکاروں نے انجام دیا جو رومن سلطنت میں مختلف مقامات پر جا کر بڑے منصوبے مکمل کرتے تھے۔

The museum of london archaeology
رومی لندن میں صرف وقتی قیام کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ انہوں نے یہاں سرمایہ کاری کی اور اسے ایک مستقل شہری مرکز کے طور پر اپنایا۔ ( فوٹو: بی بی سی)

ہان لی نے کہا یہ حیران کن ہے کہ ان فنکاروں کا کام دو ہزار سال بعد بھی آج ہمارے سامنے آ رہا ہے۔ ساؤتھ وارک میں ہونے والی کھدائی کے دوران اسی مقام سے ایک موزیک فرش اور رومن قبرستان بھی دریافت ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ علاقہ اُس وقت کا ایک متمول مضافاتی علاقہ تھا، جسے “رومن لندن کا بیورلی ہلز” قرار دیا جا رہا ہے۔

ایم او ایل اے کے اینڈریو ہینڈرسن شوارتز کے مطابق یہ دریافت ظاہر کرتی ہے کہ رومی لندن میں صرف وقتی قیام کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ انہوں نے یہاں سرمایہ کاری کی اور اسے ایک مستقل شہری مرکز کے طور پر اپنایا۔ یہ تحقیق ابھی جاری ہے اور ماہرین کو امید ہے کہ مزید فوسلز اور پینٹنگز کے ٹکڑے ملنے سے برطانیہ میں رومن تہذیب کی تفہیم میں اضافہ ہوگا۔

Author

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس