Follw Us on:

ٹرمپ کے حامیوں میں مزید تقسیم، امریکی سینیٹر کے انٹرویو نے نئی سیاسی بحث چھیڑ دی

مادھو لعل
مادھو لعل
American senator
کیا اسرائیل امریکا کی جاسوسی کر رہا ہے؟ (فوٹو: فائل)

معروف امریکی میڈیا شخصیت اور سابق فاکس نیوز اینکر ٹکر کارلسن کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر سینیٹر ٹیڈ کروز کے انٹرویو کے کلپس جاری کیے جانے کے بعد امریکا بھر میں ایک نئی سیاسی بحث چھڑ گئی، جس میں اسرائیل پر جاسوسی کا سوال کیا گیا ہے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے العربیہ اردو کے مطابق اس ویڈیو کے مکمل انٹرویو کو جمعرات کے روز نشر کیے جانے کا امکان ہے، ویڈیو کے ایک کلپ میں ریپبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز سے فاکس نیوز کے لیے کئی برس تک کام کرنے والے ٹکر کارلسن براہ راست سوال کرتے ہیں کہ کیا اسرائیل امریکا کی جاسوسی کر رہا ہے؟” جس پر کروز نے حیران کن انداز میں جواب دیا کہ ہاں، شاید۔

کارلسن نے اس جواب پر اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے مزید استفسار کیا کہ کیا سینیٹر کو اس پر کوئی اعتراض نہیں؟ جس پر کروز نے وضاحت کی کہ قدامت پسند حلقے اس معاملے پر زیادہ آواز نہیں اٹھاتے کیونکہ وہ اس صورتحال کو سمجھتے ہیں۔

میزبان نے سوال کیا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دوسروں کو اپنی جاسوسی کے لیے ادائیگی کریں؟ جو دراصل اسرائیل کو دی جانے والی وسیع امریکی حمایت کی طرف اشارہ تھا۔

Interview
کیا سینیٹر کو اس پر کوئی اعتراض نہیں؟ (فوٹو: فائل)

ان کلپس کی اشاعت کے فوراً بعد سے سوشل میڈیا پر ایک شدید بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ امریکیوں کے درمیان تل ابیب کی حمایت کرنے والوں، اس کی مخالفت کرنے والوں اور سینیٹر کروز کے متنازع بیان پر تنقید کرنے والوں میں واضح تقسیم دیکھی گئی ہے۔

واضح رہے کہ یہ ویڈیو ایسے وقت میں منظر عام پر آئی ہے جب ایران کے خلاف ممکنہ امریکی فوجی کارروائی کی قیاس آرائیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی قدامت پسند حلقوں میں اختلاف رائے کو نمایاں کیا ہے۔ کئی “میک امریکہ گریٹ اگین” (MAGA) حامیوں نے ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ میں ملک کو نہ جھونکیں۔

عالمی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق جمعرات کو صدر ٹرمپ کے بعض اہم ریپبلکن اتحادیوں نے غیر معمولی طور پر ان سے اختلاف کا اظہار کیا۔ حالانکہ ٹرمپ کی پالیسی کا محور ہمیشہ سے عالمی تنازعات سے گریز رہا ہے، مگر اسرائیل کی حمایت میں ممکنہ فوجی کارروائی نے ان کے قریبی حلقے کو تقسیم کر دیا ہے۔

“امریکہ فرسٹ” نظریے کے سرگرم داعی لیفٹیننٹ جنرل سٹیو بینن نے ایک تقریب کے دوران اسرائیل میں امریکی فوجی شمولیت پر شدید احتیاط برتنے کی اپیل کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم دوبارہ وہی غلطی نہیں دہرا سکتے، ہمیں عراق جیسے تجربے سے سبق لینا چاہیے ورنہ ملک بکھر جائے گا۔

اسی طرح سابق نائب صدر مائیک پینس کے قریبی اتحادی مارک شارٹ نے ریپبلکن پارٹی کے اندر ایران کے مسئلے پر پیدا ہونے والی تقسیم کو “بہت بڑی دراڑ” قرار دیا۔ البتہ انہوں نے واضح کیا کہ اختلافات کے باوجود پارٹی کی اکثریت اب بھی ٹرمپ کی حمایت جاری رکھے گی، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ٹرمپ کی سیاسی حکمت عملی کے لیے مفید قرار دیا جا سکتا ہے۔

Trump
ہم دوبارہ وہی غلطی نہیں دہرا سکتے، ہمیں عراق جیسے تجربے سے سبق لینا چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

مارچ میں رائٹرز/اِپسوس کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق 48 فیصد ریپبلکنز نے اسرائیل کے تحفظ کے لیے امریکی فوجی طاقت کے استعمال کی حمایت کی تھی، چاہے اس کا ذریعہ کچھ بھی ہو۔ اس کے برعکس، 28 فیصد ریپبلکنز اس کے مخالف تھے۔ ڈیموکریٹ حلقے میں، صرف 25 فیصد نے حمایت کی، جب کہ 52 فیصد نے مخالفت کی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ ایران یا مشرق وسطیٰ میں کسی فوجی تنازع میں الجھتے ہیں تو انہیں اپنی ہی جماعت کے “MAGA” دھڑے کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ مخالفت ٹرمپ کی 2024 کی انتخابی مہم اور ریپبلکنز کی 2026 کے وسط مدتی انتخابات میں کامیابی کے امکانات کو متاثر کر سکتی ہے کیونکہ یہی اتحاد انہیں 2016 اور 2024 میں اقتدار تک لے کر آیا تھا۔

واضح رہے کہ ٹکر کارلسن اور ٹیڈ کروز کے درمیان ہونے والا یہ انٹرویو نہ صرف اسرائیل اور امریکا کے تعلقات پر سوالات اٹھا رہا ہے بلکہ اس نے ریپبلکن پارٹی کے اندرونی اختلافات کو بھی نمایاں کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بحث نے مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار اور مستقبل کی خارجہ پالیسی پر بھی نئی جہتیں کھول دی ہیں۔

Author

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس