Follw Us on:

پاکستانی حکومت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کیوں کی؟

زین اختر
زین اختر
Trump iconic pic
پاکستانی حکومت نے صدر ٹرمپ کے اس کردار کو عالمی امن کے لیے ایک سنجیدہ اور نتیجہ خیز کوشش قرار دیا ہے۔ (فوٹو: رائٹرز)

پاکستان کی حکومت نے انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی میں فیصلہ کن سفارتی مداخلت اور اعلیٰ قیادت کا مظاہرہ کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام 2026 کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کی ہے۔

پاکستان نے اس بات کا باقاعدہ اعتراف کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی قیادت اور بروقت سفارتی مداخلت نے جنوبی ایشیا کو ایک ممکنہ ایٹمی تصادم سے محفوظ رکھا۔

حالیہ پاک انڈیا کشیدگی کے دوران امریکی صدر نے اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں کے ساتھ براہ راست رابطے قائم کیے، جس سے نہ صرف جنگ کا خطرہ ٹالا گیا بلکہ دو دشمن ہمسایہ ممالک کے درمیان جنگ بندی ممکن ہوئی۔ پاکستانی حکومت نے صدر ٹرمپ کے اس کردار کو عالمی امن کے لیے ایک سنجیدہ اور نتیجہ خیز کوشش قرار دیا ہے۔

ٹرمپ کو پاکستان نے “اصل ثالث” قرار دیتے ہوئے ان کے کردار کو مشرق وسطیٰ میں بھی استحکام کی علامت کے طور پر سراہا۔ صدر ٹرمپ نے خود بھی اس سلسلے میں ایک بیان میں کہا کہ انہیں روانڈا، کانگو، سربیا، کوسوو، اور سب سے بڑھ کر پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کرانے پر نوبل انعام دیا جانا چاہیے۔

پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو 22 اپریل کو پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا تھا۔ جواباً پاکستان کی مسلح افواج نے 6 مئی کی رات انڈیا کی فضائی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اور اس کے 5 جنگی طیارے، جن میں 3 رافال شامل تھے، مار گرائے۔ ساتھ ہی ایک بریگیڈ ہیڈ کوارٹر سمیت متعدد انڈین فوجی چیک پوسٹوں کو بھی تباہ کر دیا گیا۔

10 مئی کو پاکستان نے “آپریشن بنیان مرصوص” کا آغاز کیا جس میں بھارت کے اندر کئی حساس فوجی و فضائی تنصیبات، جیسے پٹھان کوٹ، آدم پور، ادھم پور ایئربیسز، براہموس میزائل اسٹوریج اور ایس-400 ڈیفنس سسٹمز کو نشانہ بنایا گیا۔

اسی شام، امریکا کی ثالثی کے نتیجے میں دونوں ممالک نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی، جس کا اعلان صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر مسعود پیزشکیان سے رابطہ کر کے جنوبی ایشیا میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایران کی سفارتی کوششوں کو سراہا، جبکہ ترک اور آذربائیجانی حکومتوں کی پاکستان کے ساتھ یکجہتی کے باعث انڈیا میں ان کا بائیکاٹ بھی شروع ہوا، جس کے نتیجے میں ہزاروں انڈین شہریوں نے اپنے سیاحتی دورے منسوخ کر دیے۔

یہ تمام واقعات ایک ایسے سفارتی ماحول کا مظہر ہیں جہاں صدر ٹرمپ کا کردار ایک فعال ثالث اور عالمی امن کے داعی کے طور پر نمایاں ہوا، جسے پاکستان کی جانب سے نوبل امن انعام کی نامزدگی کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

Author

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس