Follw Us on:

احساس کی موت — اور ہم زندہ کہلاتے ہیں؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Whatsapp image 2025 06 21 at 23.12.34

اکثر ہم سوچتے ہیں کہ موت ایک خاموشی ہے، مگر بعض اموات چیخ ہوتی ہیں — انسان کی تنہائی، اپنوں کی بےحسی، اور دنیا کی بےوفائی کی چیخ۔ کبھی کبھی کوئی خبرنہیں آتی، بس خاموشی چیخ اٹھتی ہے۔

اداکارہ عائشہ خان کی موت کا معاملہ کچھ ایسا ہی تھا… ایک ہفتے تک فلیٹ میں مردہ جسم بُو دیتا رہا، اور دنیا بے خبر رہی۔ شاید وہ صرف ایک اداکارہ نہیں مری،

اس کے ساتھ “احساس” بھی مر گیا۔

یہ خبر ہم سب کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔

آج اگر ہم میں تھوڑا سا بھی احساس زندہ ہے، تو ہم یہ سوال ضرور کریں گے: آخر ایسا کیوں ہوا؟

کیوں وہ جسم جو کسی ماں کی ممتا سے پیدا ہوا، کسی بیٹی کی مسکراہٹ تھا، کسی بہن کی یاد تھا، وہ ایک ہفتے تک تنہا، بے کفن، بے صدا پڑا رہا؟

شاید اس رش بھری دنیا میں سب تنہا ہیں…شاید ہم سب کے اردگرد لوگ ہیں، لیکن رشتے نہیں۔

رشتوں کی مٹھاس نجانے کون سی دیمک چاٹ گئی ہے…محبت اب خالص نہیں،

تعلق اب صرف ضرورت کا نام ہے۔

اور جو رشتے “لالچ” پر بنیں…

چاہے وہ ماں اور اولاد کا ہو، یا باپ اور بیٹی کا…وہ رشتے کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔

جیسے لکڑی اندر سے گل جائے اور باہر سے ٹھیک لگے۔ میرا پیغام ان والدین کے لیے ہے۔

جو اپنی اولادوں کی تربیت مسلمان ہو کر مغربی تہذیب کے رنگ میں کرتے ہیں۔

یاد رکھیں!

اگر آپ نے اولاد کے دل میں “دین” نہ بھرا، تو پھر وہ اولاد آپ کے جنازے پر نہیں آئے گی۔ آپ کی خبر لینے والا کوئی نہ ہوگا۔

اللّٰہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

“تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔”(صحیح بخاری)

اور قرآن کہتا ہے:

“یٰأَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِیكُمْ نَارًا”

 “اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ” (سورۃ التحریم: 6)

پھر بھی ہم اولاد کی دنیا بنانے کے چکر میں اُن کی آخرت برباد کر دیتے ہیں۔

پھر بھی ہم خود تومرجاتے ہیں،

لیکن اولاد کو ایسی زندہ لاش بنا جاتے ہیں،

جس میں نہ دعا ہوتی ہے، نہ وفا۔

آج عائشہ خان کا تنہا جسم ہم سے سوال کر رہا ہے:

کیا یہی ہے ہماری زندگی؟

کیا یہی ہے ہمارا انجام؟

خدارا! ہوش میں آ جاؤ۔

زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔

یہ دنیا خریداروں کی ہے، مگر ایمان بیچنے کے لیے نہیں۔ یہ دنیا دکھاوا ہے، مگر قبر کا اندھیرا سچا ہے۔

یاد رکھو!

مرنے کے بعد اگر تمہیں دفنانے والا بھی نہ ملے، تو تمہاری ساری “شہرت”، ساری “جائیداد”، سارے “فالورز”

بے کار ہیں۔ اب بھی وقت ہے…

اپنی اولاد کو دین کی محبت کا لالچ دو،

نماز کی عادت کا لالچ دو،

قرآن سننے کا شوق دو،

رب سے جڑنے کی ترغیب دو۔

پھر دیکھو،وہ تمہارے جیتے جی بھی تمہارے ساتھ ہوں گے،

اور مرنے کے بعد بھی تمہاری بخشش کی دعا کریں گے۔

اللّٰہ ہمیں ایسی زندگی سے بچا لے جو “زندگی” کہلانے کے لائق نہ ہو،

اور ایسا انجام عطا کرے جس میں فرشتے بھی استقبال کریں۔

ختم کرتے ہوئے صرف اتنا کہوں گی:

جس دل میں احساس مر جائے،

وہ قبر سے پہلے دفن ہو جاتا ہے۔

اللّٰہ ہمیں زندہ دل، زندہ ضمیر، اور زندہ ایمان والا بنا دے۔

آمین یا رب العالمین۔

نوٹ: یہ تحریر معروف بلاگر عتیقہ بشیر نے لکھی ہے، ادارے کا ان کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں،ایڈیٹر

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس