ایران کی تین جوہری تنصیبات پر امریکا کے حملے کے بعد عالمی جوہری توانائی ایجنسی ( آئی اے ای اے) اقوام متحدہ اور ایران نے سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ جوہری ادارے کے مطابق، تاحال تابکاری کے پھیلاؤ کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران کے تین جوہری مقامات، جن میں فردو بھی شامل ہے، پر حملوں کے بعد اب تک کسی بیرونی علاقے میں تابکاری کی سطح میں اضافے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ ادارے نے مزید کہا کہ جیسے جیسے مزید معلومات دستیاب ہوں گی، ایران کی صورتحال کا جائزہ جاری رکھا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے امریکا کی جانب سے طاقت کے استعمال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ، میں امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف طاقت کے استعمال پر سخت تشویش کا اظہار کرتا ہوں۔ یہ ایک ایسے خطے میں خطرناک اضافہ ہے جو پہلے ہی کشیدگی کے دہانے پر ہے، اور یہ عالمی امن و سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا، اس تنازع کے بگڑنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر کے شہریوں کے لیے تباہ کن نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔ گوتریش نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے کشیدگی میں کمی لائیں۔ ان کے بقول، اس نازک گھڑی میں ضروری ہے کہ افراتفری کے دائرے کو روکا جائے۔ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ واحد راستہ سفارت کاری ہے، اور واحد امید امن ہے۔

ایران نے بھی امریکی کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکا جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے، اس نے ایران کی پُرامن جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے اقوام متحدہ کے چارٹر، عالمی قانون اور این پی ٹی کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ، یہ کارروائیاں ناقابل قبول اور ناقابل معافی ہیں اور ان کے طویل مدتی نتائج ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے ہر رکن کو اس غیرقانونی اور مجرمانہ رویے پر تشویش ہونی چاہیے۔ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران اقوام متحدہ کے چارٹر کی ان شقوں کے مطابق، جو خود دفاع کی اجازت دیتی ہیں، اپنے اقتدار اعلیٰ، مفادات اور عوام کے دفاع کے لیے تمام آپشنز محفوظ رکھتا ہے۔
امکان ہے کہ آئندہ دنوں میں ایران کی جانب سے جوابی کارروائی یا سفارتی اقدامات دیکھنے میں آئیں گے۔ اقوام متحدہ اور آئی اے ای اے صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔