پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے کم شرح خواندگی رکھنے والا دوسرا ملک ہے جو خطے میں تعلیم پر سب سے کم جی ڈی پی خرچ کر رہا ہے، آزادی کے 78 سال گزرنے کے باوجود شرح خواندگی تشویشناک ہے۔
وزارت برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے مطابق پاکستان کی موجودہ شرح خواندگی 62.3 ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں 60 ملین لوگ ناخواندہ ہیں، تیزی سے ترقی کرتے اس دور میں بھی پاکستان کے بعض شہروں کی شرح خواندگی 50 فیصد سے کم ہے، افغانستان کے بعد پاکستان خطے میں سب سے کم شرح خواندگی رکھنے والا ملک ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق راولپنڈی 82.45 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ ملک بھر میں سرفہرست ہے، وسطی کراچی 82 فیصد شرح کے ساتھ دوسرے اور دارالحکومت اسلام آباد تیسرے نمبر پر موجود ہے، لاہور، سیالکوٹ، گجرات، جہلم جیسے شہروں میں شرح خواندگی 80 فیصد سے بھی کم ہے، کوہلو، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، واشک، جھل مگسی، نصیر آباد، بارکھان، ڈیرہ بگٹی، اواران اور ٹھٹھہ میں یہ شرح 25 فیصد سے بھی کم ہے۔
پاکستانی ماہر معیشت اور سابق وفاقی وزیر خرانہ ڈاکٹر محبوب الحق کے مطابق پاکستان کی کارکردگی نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ سمیت 150ممالک سے بھی نیچے ہے، تعلیم پائیدار ترقی اور عالمی امن کے حصول میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ غربت اور عدم مساوات کو کم کرنے، اقتصادی ترقی، جدت، ماحولیاتی پائیداری، سماجی ہم آہنگی، رواداری کو فروغ دینے، عالمی شہریت اور انسانی حقوق کو بااختیار بنانے میں تعلیم کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
24 جنوری 2018 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے تعلیم کا عالمی دن مختص کیا گیا تھا، جس کا بنیادی مقصد تعلیم کو انسانی حق کے طور پر تسلیم کراوانا تھا، جامع، مساوی، اور معیاری تعلیم کا فروغ، تعلیمی چیلنجز کے بارے میں بیداری پیدا کرنا بھی ان مقاصد میں شامل تھے۔
موجودہ دور میں پاکستانی شعبہ تعلیمی بہت سی مشکلات کا شکار ہے، پاکستان میں ناخواندگی کی بڑی وجہ تعلیم تک رسائی نہ ہونا بھی ہے، غریب طبقہ تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں، بچے اب گھر کا چولہا جلانے کی خاطر والدین کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور علم کی روشنی سے محروم رہ جاتے ہیں، ناقص معیار تعلیم اور اساتذہ کی کم تعداد بھی شرح خواندگی میں سست اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
دوسری جانب حکومتِ پاکستان شرح خواندگی میں اضافے کے لئے بہت سے اقدامات کر رہی ہے جن میں آرٹیکل 25 خاصی اہمیت کا حاصل ہے، آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کے لئے مفت اور لازمی تعلیم کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، شرح خواندگی میں اضافے کے لئے بنیادی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی اصلاحاتی پروگرام تشکیل دیا گیا ہے، ہائیر ایجوکیشن کے قیام کا مقصد اعلیٰ تعلیم کی نگرانی کرنا، تحقیق کو فروغ دینا اور اسکالر شپ فراہم کرنا ہے۔ علاوہ ازیں روزگار اور ہنر کے فروغ کے لئے نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن جیسے ادارے بھی تشکیل دیے گئے ہیں۔
گورنمنٹ گریجوایٹ کالج آف سائنس کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ ڈاکٹر شفاعت علی ملک نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی نظام تعلیم پر کھل کر اظہار خیال کیا، پاکستانی نظام تعلیم کی بہتری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وطن عزیز میں نظام تعلیم کا زیادہ زور صرف کتابیں یاد کرنے پر ہے۔ طلبہ میں تخلیق صلاحیتیں نکھارنے کے حوالے سے زور نہیں دیا جاتا۔ بچے اور والدین صرف زیادہ نمبرز لینے کے چکر میں حرف بہ حرف، سطر بہ سطر معلومات کو رٹنے پر زور دیتے ہیں۔ حاصل کردہ علم کی عملی صورت نظر نہیں آتی۔ موجودہ دور جس میں جدت کی رفتار گزشتہ ادوار سے بہت زیادہ ہے اور ٹیکنالوجی تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے جس کی وجہ سے تبدیلی کا وہ سفر جو دہائیوں میں طے کیا جاتا تھا وہ اب سالوں اور مہینوں میں طے ہو رہا ہے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ “پاکستان میں نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی شدید ضرورت ہے اور اس کو رٹے سے نکال کر عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ان ممالک کے نظام تعلیم کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جو ترقی یافتہ ہیں اور اس کے بعد پاکستان کی ضروریات کے مطابق اس میں مناسب تبدیلیوں سے اس کو لاگوکیا جائے تواس کے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ دوسری ضروری چیز میڈیم آف ایجوکیشن ( ذریعہ تعلیم) اردو زبان کو قرارد یا جائے تو اس کے بہت زیادہ مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں مگر اس میں وہ طبقہ رکاوٹ ہے جو صرف حکمرانی کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ حق عام پاکستان کو دینے کے لئے تیار نہیں”۔
ڈاکٹر شفاعت علی ملک نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ” تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے تیسری چیز اساتذہ کی تربیت ہے۔ اس حوالے سے جدید تقاضوں کے مطابق علم کی ترویج ضروری ہے۔ اساتذہ کی بہتر تعلیم، بہتر تربیت، مسلسل ریفریشر کورس کے ساتھ ساتھ ان کی تنخواہوں پر نظر ثانی بہت ضروری ہے۔ اساتذہ معاشی اور دیگر مسائل سے نکلنے کے بعد ہی بہتر تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے قابل ہو سکتے ہیں”۔
اس حوالے سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر آصف بخاری نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “نظامِ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے نصاب میں یکسانیت، اساتذہ کی تربیت، اسکول کی بنیادی سہولیات، اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا ضروری ہے۔ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں توازن پیدا کر کے سب کو مساوی تعلیمی مواقع دیے جائیں”۔
شرح خواندگی میں اضافے کے لیے اقدامات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شفاعت علی ملک نے کہا کہ “تعلیم سب کےلئے ضروری قرار دی جائے۔ تعلیم مفت کی جائے۔ موجودہ حالات میں عام آدمی پرائمری سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک بچوں کو تعلیم دلانے کی صلاحیت کھو رہا ہے جس کی وجہ سے لوگو بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے کسی کام یا ورکشاپ بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں”۔

انہوں نے مزید کہا کہ “لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے آگاہی پیدا کی جائے خاص طور پر دیہی علاقوں میں ذریعہ تعلیم قومی یا مقامی زبانوں کو بنایا جائے کیونکہ بطور استاد میرا تجربہ ہے کہ طلبہ کی ایک کثیر تعداد انگریزی ذریعہ تعلیم ہونے کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ دیتی ہے۔ تعلیم کے ساتھ حصول روزگار کو وابستہ کیا جائے اور روایتی تعلیم حاصل کرکے اگر اس سے روزگار کو تحفظ نہیں ملتا تو لوگ ایسی تعلیم کے بجائے کام سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ روزی روٹی کا بندوبست کیا جا سکے”۔
دوسری جانب شرح خواندگی میں اضافے پر بات کرتے ہوئے پروفیسر آصف بخاری نے کہا کہ ” شرح خواندگی بڑھانے کے لیے فری پرائمری ایجوکیشن، دیہی علاقوں میں اسکول قائم کرنا، خواتین کی تعلیم پر توجہ، اور بالغوں کے لیے لٹریسی پروگرامز متعارف کرانا ضروری ہے”۔
تعلیمی معیار کو پرکھنے اور بہتری پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر شفاعت علی ملک نے کہا کہ “ہمارا تعلیمی معیار گزشتہ دہائی تک سال ہا سال پرانا تھا۔ جو لوگوں کو صرف خواندہ بنا رہا تھا۔ کچھ عرصہ سے پاکستان میں اس حوالے سے کام ہو رہا ہے اور اب میٹرک تک سلیبس کو تبدیل اور نئے مضامین متعارف کرائے جا ر ہے ہیں۔ تاہم ابھی بھی اس حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ ہر سال بی ایس میں داخلہ لینے والے طلبہ گزشتہ سال داخل ہونے والے طلبہ سے کم صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں اور ہوتے ہوتے یہ معیار انتہائی نیچے جا رہا ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ “جگہ جگہ شروع ہونے والے کورسز بھی تعلیمی معیار کم ہونے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے کوئی بھی نیا پروگرام شروع کرنے کے لئے این او سی جاری کر دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ سرکاری یا نجی تعلیمی اداروں میں کسی بھی پروگرام کو شروع کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ اس پروگرام کے متعلقہ اساتذہ کی تعلیمی قابلیت، ان کی تعداد اور اس پروگرام سے وابستہ تمام سہولیات موجود ہیں۔ دوسری صورت میں صرف ڈنگ ٹپاو پالیسی سے معیار بہتر ہونے کے بجائے مزید گرتا جائے گا”۔
تعلیمی معیار کو پرکھنے اور بہتری سے متعلق پروفیسر آصف بخاری کا کہنا ہے کہ ” تعلیمی معیار جانچنے کے لیے اسٹوڈنٹس کی کارکردگی، نصاب کی مطابقت، اور اساتذہ کی صلاحیتوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ بہتری کے لیے باقاعدہ مانیٹرنگ، پالیسی اپڈیٹ، اور جدید تعلیمی طریقوں کو اپنانا ہوگا”۔

ہمسایہ ممالک کے مقابلے پاکستان کے تعلیمی بجٹ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شفاعت علی ملک نے کہا کہ “پاکستان اور ایسے ترقی پذیر ممالک قرضوں اور دیگر معاشی مسائل میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ ان کی زیادہ تر آمدن قرضوں کی ادائیگی اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں صر ف ہو جاتی ہے اور اس کے بعد کٹ لگانے کے لئے تعلیم اور صحت جیسے شعبے بچ جاتےہیں”۔
انہوں نے مزید کہا کہ “ذرائع آمدن میں کمی کے ساتھ ساتھ اربابِ اختیار کے لیے ضروری ہے کہ وہ تعلیم کو ترجیح بنائیں۔ تعلیم چونکہ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے اس لیے اس حوالے سے بجٹ بڑھانے کے بجائے کم کیا جا رہا ہے۔ موجود تعلیمی اداروں کو بھی نجی شعبہ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ بہتر ہے کہ جو اصلاحات نجی شعبے نے کرنی ہیں وہ حکومت خود کرے تاکہ زیادہ ریونیو اکٹھا کیا جا سکے۔ کوئی بھی تعلیمی ادارہ جو سرکاری شعبہ میں آمدن کے حوالے سے نقصان کا باعث بن رہا ہوتا ہے جب اس کو نجی شعبہ کے حوالے کیا جاتا ہے تو وہ منافع بخش ادارہ بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے حکومتی سطح پر اصلاحات کر کے اس صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے”۔
دوسری جانب پروفیسر آصف بخاری کا اس حوالے سے ماننا ہے کہ ” تعلیمی معیار جانچنے کے لیے اسٹوڈنٹس کی کارکردگی، نصاب کی مطابقت اور اساتذہ کی صلاحیتوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ بہتری کے لیے باقاعدہ مانیٹرنگ، پالیسی اپڈیٹ، اور جدید تعلیمی طریقوں کو اپنانا ہوگا”۔
دفاعی شعبے کے ساتھ ساتھ تعلیم پر خرچ کرنے سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر شفاعت علی ملک نے کہا کہ “کسی بھی ملک کی دفاعی صلاحتیوں سے انکار ممکن نہیں۔ مگر میری ذاتی رائے میں لوگوں کو حقیقی طور پر تعلیم یافتہ بنا کر ان وجوہات کو ہی ختم کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے دفاع پر زیادہ بجٹ خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ دنیا میں شینگن ممالک کے مسائل موجود ہیں جس میں شامل 29 ممالک نے اپنی سرحدیں کھول رکھی ہیں اور وہ دفاعی ضروریات سے زیادہ انسانی مسائل اور ان کے حل پر توجہ دے رہے ہیں۔ تاہم پاکستان ایک ایسے خطے میں ہے جہاں پر یہ کام مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں۔ اس حوالے سے سارک اور دیگر موجود پلیٹ فارم کو استعمال کر کے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے جس کے مستقبل میں خاطر خواہ نتائج سامنے آ سکتے ہیں، اور ایسے ہی دفاع کے بجائے بجٹ تعلیم پر خرچ کیا جا سکتا ہے”۔

اس حوالے سے پروفیسر آصف بخاری کا خیال ہے کہ” تعلیم قومی ترقی کی بنیاد ہے اور مضبوط دفاع کے لیے بھی تعلیم یافتہ قوم کا ہونا ضروری ہے۔ تعلیم پر سرمایہ کاری سے معیشت مضبوط ہوگی، غربت کم ہوگی اور قومی سلامتی بہتر ہوگی”۔
ماہرین کر رائے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی شرح خواندگی میں اضافہ نہ ہونا بہت سے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ بہتر مستقبل، مضبوط دفاعی نظام اور معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے تعلیم کا فروغ ناگزیر ہے۔ تعلیم کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر ہنگامی اقدامات بھی نہایت ضروری ہیں اگر فل فور شرح خواندگی کے مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو مستقبل میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب ذہنوں میں ایک ہی سوال بار بار آرہا ہے کہ آج تعلیم کے عالمی دن پر کیا صرف حسب معمول تقاریب ہی منعقد ہوں گی یا پھر اس اہم مسئلے کے حل پر غور و فکر بھی کیا جائے گا؟