بالآخر وہ دن بھی آ ہی گیا جب آزاد کشمیر کی سیاست میں ایک اور اہم موڑ نے جنم لیا۔ ملک کے معروف بزنس مین، سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر اور استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ سردار تنویر الیاس خان نے نہ صرف اپنی جماعت کو خیرباد کہا بلکہ اپنے قریبی رفقاء کے ہمراہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر کے سیاسی افق پر ایک نئی داستان رقم کی۔ شہر قائد میں فریال تالپور سے ملاقات کے بعد ہونے والے اس اعلان نے صرف کشمیر کی سیاست ہی نہیں بلکہ پاکستان کی مرکزی سیاسی صف بندیوں میں بھی ایک نئی ترتیب کا اشارہ دے دیا ہے۔
سردار تنویر الیاس خان کوئی معمولی سیاستدان نہیں، وہ کاروبار کی دنیا سے سیاست کے ایوانوں تک آنے والے ان معدودے چند افراد میں سے ہیں جنہوں نے محض سرمایہ اور رسوخ کے بل پر نہیں بلکہ عملیت پسندی، انقلابی سوچ اور عوامی بہبود کے جذبے کے ساتھ اپنی شناخت بنائی۔ جب وہ وزیر اعظم آزاد کشمیر بنے تو ان کے ناقدین نے انہیں محض ایک روایتی ”کاروباری شخصیت“ہی سمجھا، جو شاید اقتدار کی کرسی سے لطف اندوز ہونے آیا ہو مگر وقت نے ثابت کیا کہ سردار تنویر محض”سیٹھ“نہیں بلکہ ایک وژنری راہنما ہیں، جنہوں نے کشمیر کی زمین پر کئی برسوں سے رکے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا اور برسوں سے ٹھپ پڑے بلدیاتی نظام کو بحال کر کے جمہوریت کی نچلی سطح پر روشنی کی ایک کرن پیدا کی۔
پیپلز پارٹی میں شمولیت کے فیصلے کو” سطحی نگاہ “سے دیکھنے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض ”سیاسی مفاد یا وقتی مجبوری“ کا شاخسانہ ہے تو وہ آزاد کشمیر کی سیاسی حرکیات اور سردار تنویر کی شخصیت کی گہرائیوں سے نابلد ہیں۔ درحقیقت یہ ایک فکری ہم آہنگی، نظریاتی قربت اور مسئلہ کشمیر پر تاریخی تسلسل کا امتزاج ہے، جو بالآخر اس نئی صف بندی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد ہی مسئلہ کشمیر پر رکھی گئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب پیپلز پارٹی کی داغ بیل ڈالی تو کشمیر کا مقدمہ ان کی سیاست کا مرکزی نکتہ تھا۔ وہ اقوامِ متحدہ میں کشمیر کی وکالت کرتے ہوئے جب آنکھوں میں آنسو اور لہجے میں گرج لے کر بولتے تو ایک پوری قوم کو احساس ہوتا کہ یہ شخص کشمیر کے لیے دل سے تڑپتا ہے۔
بعد ازاں محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی اسی روایت کو آگے بڑھایا، ان کے دور میں کشمیری قیادت کو بھرپور سفارتی سپورٹ ملی اور ہر بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا گیا۔ آصف زرداری نے اپنے صدارتی دور میں آزاد کشمیر کو ترقیاتی فنڈز کی غیر معمولی فراہمی کے ذریعے مرکز سے مضبوط رشتہ استوار کیا جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے نئی نسل کے ترجمان کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر کو جدید عالمی بیانیے کے ساتھ جوڑنے کی کامیاب کوشش کی۔ ایسے میں سردار تنویر الیاس خان کا پیپلز پارٹی میں شامل ہونا، ایک فطری ارتقاء کے مترادف ہے کیونکہ جہاں ایک طرف انہیں ایسے”سیاسی پلیٹ فارم“ کی ضرورت تھی جو ریاستی خود مختاری اور ترقیاتی ویژن کے لیے مضبوط قومی پشت پناہی فراہم کرے، وہیں پیپلز پارٹی کو بھی ایک ایسے”مقبول اور وسائل یافتہ“کشمیری قائد کی ضرورت تھی جو ریاست کے اندر اس کی جڑوں کو مضبوط کرے۔
یہ شمولیت دراصل ایک”باہمی ضرورت، نظریاتی ہم آہنگی“اور مسئلہ کشمیر پر مشترکہ موقف کی بنیاد پر ہوئی ہے، نہ کہ محض اقتدار کے”میوزیکل چیئر“میں ایک نئی نشست حاصل کرنے کے لیے۔ ۔اس تقریب میں جو چہرے موجود تھے، وہ اس شمولیت کی سنجیدگی اور اس کے ممکنہ اثرات کا واضح عندیہ دیتے ہیں۔ فریال تالپور، جو پارٹی میں تنظیمی معاملات اور داخلی سیاست پر گہری نظر رکھتی ہیں، انہوں نے سردار تنویر الیاس کی آمد کو نہایت گرمجوشی سے خوش آمدید کہا، ان کا یہ بیان کہ ”پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس کی بنیاد ہی مسئلہ کشمیر پر رکھی گئی تھی“کسی ”جذباتی یا لمحاتی“تقریر کا حصہ نہیں بلکہ یہ اس جماعت کی بنیادی شناخت کا اظہار ہے، جو آج بھی کشمیر کو محض سیاسی نعرہ نہیں بلکہ”قومی غیرت کا استعارہ“ سمجھتی ہے ۔
اس تقریب میں موجود دیگر اہم شخصیات، مثلاً سابق صدر و وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار یعقوب خان ، سلیم مانڈوی والا، گورنر پنجاب سردار سلیم حیدرخان، وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار، سینئر رہنما پاکستان پیپلز پارٹی چوہدری محمد ریاض اور وزیر حکومت آزاد کشمیر ضیاء القمر اور دیگر مرکزی رہنماوں کی موجودگی اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ پیپلز پارٹی سردار تنویر الیاس کو محض ایک عددی اضافے کے طور پر نہیں بلکہ ایک”حقیقی پارٹنر“کے طور پر دیکھ رہی ہے ۔یہ شمولیت پارٹی کے اس دیرینہ بیانیے کو تازگی دے گی جس میں مرکز اور ریاست کے درمیان ایک ہم آہنگ ترقیاتی شراکت داری کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ آزاد کشمیر کی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو سردار تنویر الیاس کی پیپلز پارٹی میں آمد کئی پرتیں رکھتی ہے، ایک طرف مسلم لیگ ن کے لیے یہ ایک کاری ضرب ہے کیونکہ سردار تنویر الیاس، ان کے حلقہ اثر میں سب سے متحرک اور عوامی سطح پر مقبول رہنما کے طور پر جانے جاتے رہے ہیں۔
دوسری طرف تحریک انصاف، جس سے وہ عملاً الگ ہو چکے تھے، اب مزید کمزور ہو گی کیونکہ سردار تنویر کے جانے سے وہ آزاد کشمیر میں اپنی سیاسی بقا کے لیے مزید غیر موثر دکھائی دے گی۔ ۔استحکام پاکستان پارٹی، جو سردار تنویرالیاس کی قیادت میں ایک نیا سیاسی تجربہ تھی اپنی”فطری عمر“پوری کر چکی ہے، اب اس جماعت کی حیثیت محض ایک باب کی ہو گی، جو سردار تنویر کے وسیع تر سیاسی سفر کا ابتدائی تجربہ تھا۔ یہ فیصلہ محض ایک سیاسی ”جاﺅ اور شامل ہو جاو“کا معاملہ نہیں بلکہ ایک ”فکری پیراڈائم شفٹ“بھی ہے۔پیپلز پارٹی نے جس طرح سردار تنویر کو خوش آمدید کہا اور جس والہانہ انداز میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو، بی بی بے نظیر، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی کشمیر کاز کے لیے خدمات کو سراہا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف قیادت پر اعتماد کا اظہار نہیں بلکہ ایک نئی فکری ہم آہنگی کی بنیاد بھی ہے۔
سردار تنویر الیاس نے بطور وزیر اعظم آزاد کشمیر جو خدمات انجام دیں، ان میں سب سے بڑا کارنامہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد تھا۔ کئی دہائیوں سے یہ عمل معطل تھا اور ریاستی سطح پر جمہوری ادارے محض مرکز کی دی گئی گرانٹس پر چل رہے تھے مگر سردار تنویر نے اس جمود کو توڑا، عوام کو مقامی سطح پر خود نمائندگی کا حق دیا اور یوں جمہوریت کی جڑیں نچلی سطح تک پھیلانے کی روایت ڈالی، یہی نہیں، انہوں نے سیاحت، تعلیم، انفراسٹرکچر اور صحت کے میدان میں بھی قابل ذکر منصوبے شروع کیے، جن کے ثمرات آج بھی ریاست محسوس کر رہی ہے۔ایسے میں ان کا پیپلز پارٹی کا انتخاب ایک ایسی”سیاسی چھتری“مہیا کرے گا، جہاں وہ اپنے ترقیاتی ایجنڈے کو ایک مضبوط قومی پالیسی کے تحت عملی جامہ پہنا سکیں گے۔
پیپلز پارٹی، جو ہمیشہ وفاق کی علامت رہی ہے، اب آزاد کشمیر میں ایک نئے جوش و خروش اور قیادت کے ساتھ ابھر سکتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب مسلم لیگ ن کا بیانیہ غیر واضح اور تحریک انصاف داخلی خلفشار کا شکار ہے، سردار تنویر کی قیادت پیپلز پارٹی کو ایک قابل عمل متبادل کے طور پر پیش کرے گی۔ ۔بلاول بھٹو زرداری کی متوقع وزارتِ عظمیٰ کے تناظر میں، فریال تالپور کا یہ بیان کہ ”آزاد کشمیر کی ترقی اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا“ایک خوش آئند وعدہ ہے مگر یہ خواب محض نعروں یا وعدوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات، خارجہ پالیسی میں جارحانہ سفارتکاری اور ریاست کے اندر مضبوط جمہوری اداروں کے قیام سے ہی ممکن ہو گا۔ سردار تنویر جیسے عملی شخصیت کی موجودگی پیپلز پارٹی کو اس سمت میں مضبوط بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔
آزاد کشمیر ایک حساس خطہ ہے، جہاں صرف سیاست نہیں بلکہ ریاستی تشخص، نظریہ پاکستان اور مسئلہ کشمیر جیسے نازک معاملات کا گہرا اثر ہے۔ سردار تنویر الیاس جیسے سیاستدان، جو ریاستی اقدار سے بخوبی آگاہ اور قومی بیانیے کے ہم نوا ہوں، ان کی شمولیت درحقیقت مرکز اور ریاست کے درمیان ایک”نظریاتی و سیاسی پل“ کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی اس موقع کو محض”عددی فائدے“ کی بجائے نظریاتی تجدید کا ذریعہ بنائے تو نہ صرف کشمیر میں اپنی کھوئی ہوئی حیثیت بحال کر سکتی ہے بلکہ مسئلہ کشمیر کے عالمی مقدمے کو بھی ایک نئی توانائی دے سکتی ہے۔
یوں لگتا ہے کہ سردار تنویر الیاس کے اس فیصلے سے نہ صرف آزاد کشمیر کی سیاست میں ایک نئی”صف بندی“ کا آغاز ہوا ہے بلکہ پاکستان کی قومی سیاست میں بھی ایک نئی جہت پیدا ہو رہی ہے، جہاں مسئلہ کشمیر ایک بار پھر مرکزِ توجہ بنے گا۔ سردار تنویر الیاس اگر اپنی سابقہ روایت برقرار رکھتے ہوئے عوامی خدمت، دیانتداری اور فکری استقامت کے ساتھ اپنی نئی جماعت میں کام کریں تو وہ آزاد کشمیر کے لیے وہی کردار ادا کر سکتے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے لیے ادا کیا تھا، یعنی ایک نئے سیاسی شعور کی بنیاد رکھنا، جہاں سیاست خدمت کا نام ہو اور قیادت اعتماد کا دوسرا نام۔