وہ بھی زمانہ تھا جب گنے چنے لوگوں کو کتاب پڑھنے اور اس سے بھی کم لوگوں کو اپنی بات دوسروں تک پہنچانےکی سہولت میسر آتی تھی۔کتابوں کی اشاعت تیز ہوئی اور زیادہ سے زیادہ لوگ لکھنے لگے۔ جہاں معلومات کا انبار لگنا شروع ہوا وہیں پرمعلومات کے معیار میں کمی آنا شروع ہوئی۔
سوشل میڈیا کے اس جدید اور تیز دور میں ہر شخص ہر لمحہ پوری دنیا سے وابستہ ہے اس کی کہی گئی بات وزن رکھتی ہے۔ اسی سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف حکومت کاروائی کر رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کے آگے بند باندھنے کیلئے حکومت متحرک نظر آرہی ہے ۔حکومت پر یہ تنقید بھی کی جارہی ہے کہ وہ کسی مخصوص جماعت کے سوشل میڈیا پر بیانیہ بنانے کے آگے بند باندھنا چاہتی ہے ۔اِس لئے وہ سوشل میڈیا پر پیکا ایکٹ کے ذریعے پابندی لگانا چاہتی ہے ۔جبکہ حکومت کا یہ خیال ہے کہ سوشل میڈیا بے لگام گھوڑا بن چکا ہے ۔جس پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا ضروری ہوگیا ہےاور یہی وجہ ہے کہ اب قومی اسمبلی نےپیکا ترمیمی بل 2025 اور ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل کثرتِ رائے سے منظور کرلیا ہے۔
پیکا ایکٹ کے تحت غیر قانونی مواد یا فیک نیوز پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکے گا۔پیکا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے نئی تحقیقاتی ایجنسی قائم کی جائے گی۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ ایسا مواد جو اسلام مخالف، قومی سلامتی یا ملکی دفاع کے خلاف، توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہو، غیر اخلاقی مواد، مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی سمیت 16 اقسام کے مواد کو غیر قانونی مواد قرار دیا گیا ہے۔
ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا بھی شامل ہوں گے۔بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔

حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجنیئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔
بل کے مطابق چیئرمین اتھارٹی سوشل میڈیا پر کسی بھی غیر قانونی مواد کو فوری بلاک کرنے کی ہدایت دے سکتا ہے جبکہ چیئرمین اور اراکین کسی دوسرے کاروبار میں ملوث نہیں ہوں گے۔
نئی ترمیم کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اتھارٹی سے رجسٹر کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے، اتھارٹی نظریہ پاکستان کے برخلاف، شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گیا۔اتھارٹی مسلح افواج ، پارلیمنٹ یا اصوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔اب حکومت اِس بل کا دفاع کر رہی ہے۔
اب حکومت سوشل میڈیا میں اصلاحات لانے کیلئے پیکا ایکٹ ا ور ڈیجیٹ نیشن بل لے کر آئی ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ اِن بلز کی وجہ سے سوشل میڈیا پر مناسب چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا ہے یا پھر ان بلز کی آڑ میں حکومت آزادی اظہار رائے کو سلب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔