ایران کی پارلیمنٹ نے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے بل کی منظوری دے دی ہے۔ سرکاری خبر رساں اداروں کے مطابق، بل کے حق میں 222 ووٹ ڈالے گئے، کسی نے مخالفت نہیں کی، جبکہ ایک رکن نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
نئے قانون کے تحت، آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو ایرانی جوہری تنصیبات تک رسائی صرف اسی صورت میں دی جائے گی جب ان کی سیکیورٹی کی مکمل ضمانت دی جائے۔ یہ اقدام حالیہ امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد ایران کی جانب سے اپنی جوہری تنصیبات کے تحفظ کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

اس بل سے متعلق ابتدائی منظوری پارلیمنٹ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیٹی نے دی تھی۔ کمیٹی کے ترجمان ابراہیم رضائی کے مطابق، یہ اقدام اقوام متحدہ کے ادارے کے غیر پیشہ ورانہ رویے اور ایران پر حالیہ حملوں کے ردعمل میں اٹھایا گیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اگر بل مکمل طور پر نافذ ہوا تو حکومت آئی اے ای اے کے ساتھ اس وقت تک کوئی تعاون نہیں کرے گی جب تک ادارے کے رویے میں پیشہ ورانہ شفافیت کی ضمانت نہ دی جائے۔
قانون کے مطابق ایران ممکنہ طور پر جوہری تنصیبات پر کیمرے ہٹانے، معائنوں کو محدود کرنے اور آئی اے ای اے کو رپورٹیں فراہم نہ کرنے جیسے اقدامات اٹھا سکتا ہے۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ نے 16 جون کو نطنز، فردو اور اصفہان میں ایرانی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کیے، جنہیں ایران نے اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا۔
ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم (اے ای او آئی) کے مطابق، ان حملوں سے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کی بھی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ تنظیم نے کہا ہے کہ ایران کا پرامن جوہری پروگرام جاری رہے گا اور ان حملوں سے پیش رفت نہیں رُکے گی۔
ایرانی حکام نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی خودمختاری، قومی مفادات اور عوام کے تحفظ کے لیے تمام دستیاب آپشنز کا استعمال کریں گے۔