بلوچستان کی تاریخ میں ایک نیا باب اس وقت رقم ہوا جب مختلف دہشت گرد تنظیموں کے اہم کمانڈرز نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔
یہ وہ کمانڈرز ہیں جنہوں نے ریاست پاکستان کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا، لیکن اب وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے امن کے راستے پر گامزن ہونے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔
ان کمانڈرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے دشمن ممالک کے چکر میں آ کر نوجوانوں کو دہشت گردی کی راہ پر ڈالا اور اب وہ اس گمراہی سے نکل چکے ہیں۔
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران دہشت گرد کمانڈرز نے انکشاف کیا کہ دہشت گرد تنظیمیں نوجوانوں کو استعمال کر کے انہیں ریاست پاکستان کے خلاف کھڑا کر رہی ہیں۔اس پریر کانفرنس میں صوبائی وزرا اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان بھی موجود تھے۔
کمانڈ کے مطابق یہ تنظیمیں بلوچستان کے امن کو تباہ کرنے کے لئے کام کر رہی ہیں تاکہ دشمن ممالک پاکستان کو کمزور کر سکیں۔اس موقعہ پر صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کا یہ گھناؤنا کھیل ایک مدت سے جاری ہے جس میں دشمن ممالک نے بلوچستان کے نوجوانوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ “ہم ان نوجوانوں کا خیرمقدم کرتے ہیں جو ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں واپس آ رہے ہیں۔”
صوبائی وزیر نے اس بات کا عزم ظاہر کیا کہ حکومت بلوچستان میں امن کے قیام کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
‘بلوچستان میں آزادی کی تحریکوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا’
اس نیوز کانفرنس میں اہم ترین دہشت گرد کمانڈرز نے اپنے انکشافات سے شرکاء کو چونکا دیا۔کمانڈر نجیب اللہ عرف درویش نے بتایا کہ دہشت گرد تنظیموں کے سرغنہ اپنے بچوں کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم دلوا کر خود عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن بلوچستان کے نوجوانوں کو دہشت گردی کے راستے پر دھکیل دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ “دہشت گرد کمانڈرز اپنے چھوٹے دہشت گردوں کو صرف استعمال کرتے ہیں اور انہیں خونریزی کی راہ پر ڈالتے ہیں جبکہ خود بھی بیرون ملک زندگی گزار رہے ہیں۔”دہشت گرد کمانڈروں نے اس بات پر زور دیا کہ دشمن ممالک کا مقصد صرف پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے اور بلوچستان کے امن کو نقصان پہنچانا ہے۔
نجیب اللہ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں آزادی کی تحریکوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا ہے لیکن دراصل یہ سب ایک گینگ وار کی صورت اختیار کر چکا ہے”،لاپتہ افراد کا ڈرامہ سب کے سامنے ہے دراصل یہ افراد پہاڑوں میں روپوش ہیں اور دہشت گرد تنظیمیں اپنے ہی کارکنوں اور کمانڈروں کو قتل کر رہی ہیں۔”
اس موقع پر دہشت گرد عبدالرشید عرف خدائیداد نے بھی اپنی کہانی سنائی جس میں انہوں نے کہا کہ کس طرح انہوں نے 2000 میں بلیدہ زعمران سے ہجرت کی اور پھر 2009 میں بی ایل ایف کے کمانڈر عابد زعمرانی سے ملاقات کے بعد دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت اختیار کی۔
عبدالرشید نے بتایا کہ کیسے انہیں دہشت گردی کی راہ پر چلنے کی ترغیب دی گئی لیکن اب وہ قومی دھارے میں شامل ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔دہشت گرد جنگیز خان نے بھی اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایک لاکھ روپے اور موٹرسائیکل کا لالچ دے کر فوج کے خلاف لڑنے کے لئے کہا گیا تھا۔جنگیز نے بتایا کہ کمانڈر معراج نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ لڑائی کے عوض اسے پیسے اور ہتھیار دئے جائیں گے لیکن اب اسے پچھتاوا ہے کہ وہ غلط راستے پر چل رہا تھا۔
یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جدوجہد میں حکومتی اداروں کا کردار کلیدی ہے اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دہشت گردوں کی بیرون ملک سے فنڈنگ ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت بلوچستان کی کوشش ہے کہ گمراہ شدہ افراد کو قومی دھارے میں واپس لایا جائے تاکہ امن کا قیام ممکن ہو سکے۔
صوبائی مشیر کھیل مینا بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ دشمن ممالک بلوچستان کے نوجوانوں کو گمراہ کر کے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ نوجوانوں کو دہشت گرد تنظیموں کے جال سے بچ کر اپنے ملک اور قوم کے لیے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ “دشمنوں کا ایجنڈا بلوچستان کو نقصان پہنچانا ہے جبکہ نوجوانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ دہشت گردی کے راستے پر چل کر وہ صرف اپنے مستقبل کو تباہ کریں گے۔”
بلوچستان میں حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات اور دہشت گرد کمانڈروں کے اعترافات یہ واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کے دشمنوں کے تمام منصوبے ناکام ہو چکے ہیں، اور بلوچستان میں امن کی ایک نئی امید کی کرن روشن ہو چکی ہے۔