Follw Us on:

پنجاب کا نام ’مریم آباد‘ رکھ دیں، سوشل میڈیا پر بحث، حقائق کیا ہیں؟

عاصم ارشاد
عاصم ارشاد
Maryam nawaz social
پنجاب اسمبلی میں تقریر کے بعد مریم نواز کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ (تصویر: پاکستان میٹرز)

پنجاب حکومت کی جانب سے سرکاری منصوبوں کو حکومتی شخصیات کے نام اور تصاویر سے منسوب کرنے کا سلسلہ ایک باقاعدہ پالیسی کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد کئی منصوبے براہِ راست ان کے یا ان کے والد نواز شریف کے نام سے منسوب کیے جا چکے ہیں، جس پر سوشل میڈیا اور صحافتی حلقوں میں شدید تنقید جاری ہے۔

حکومت نے رواں سال جنوری میں پنجاب کے 150 بنیادی صحت یونٹس کو “مریم نواز ہیلتھ کلینکس” کے نام سے دوبارہ متعارف کروایا۔ ان کلینکس میں دوائیاں، انسولین فراہمی، موٹر سائیکل پر چلنے والے موبائل کلینکس، اور ڈاکٹروں کی بھرتیوں سمیت متعدد اقدامات کا اعلان کیا گیا، لیکن ان تمام خدمات کو وزیراعلیٰ کے نام سے جوڑ دیا گیا۔

M7

یہی نہیں، لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں CT اور MRI ٹیسٹ کے ریکوزیشن فارم پر مریم نواز کی تصویر واٹرمارک کی صورت میں شامل کی گئی، جس پر عوامی ردِعمل کے بعد محکمہ صحت کو وضاحتیں دینا پڑیں اور تصاویر ہٹانے کی ہدایت جاری کی گئی۔

مزید پڑھیں: بے وقت کی بارشیں اور سیلاب کی تباہ کاریاں، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے حکومتی منصوبہ بندی کہاں ہے؟

صحت کے شعبے میں ایک اور اہم قدم کے طور پر مریم نواز نے لاہور میں پہلے سرکاری کینسر اسپتال کا سنگِ بنیاد رکھا جس کا نام “نواز شریف انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ” رکھا گیا۔ اس کے علاوہ سرگودھا میں بننے والے ایک نئے دل کے ہسپتال کا نام بھی “نواز شریف انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی” رکھا گیا یہی نہیں، مختلف حکومتی کارڈز، ہسپتال فارم، دوائیوں کی پیکنگ اور دیگر سرکاری مواد میں بھی وزیراعلیٰ یا ان کے والد کی تصاویر یا نام موجود ہیں۔

M6

حکومتی موقف یہ رہا ہے کہ یہ اقدامات عوام کی فلاح کے لیے ہیں، مگر عوامی اور صحافتی حلقے اسے عوامی پیسے سے ذاتی تشہیر کا عمل قرار دے رہے ہیں سوشل میڈیا پر اُس وقت شدید تنقید دیکھنے میں آئی جب جناح اسپتال کے ٹراما سینٹر کو “مریم نواز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیوویسکلر ڈیزیزز” کے نام سے منسوب کرنے کی خبر سامنے آئی سینئر صحافی عمر چیمہ کہتے ہیں کہ:
“پنجاب کے بہت سے نئے اور پرانے ادارے ایسے ہیں جن کے نام بیٹی یا باپ کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ خود پسندی کی انتہا ہے اور اس خواہش کی تکمیل عوامی پیسے سے ہو رہی ہے، بہتر ہے صوبے کا نام ہی ‘مریم آباد’ رکھ دیا جائے۔


سیاسی و صحافتی مبصرین اس طرزِ عمل کو غیر جمہوری، غیر اخلاقی اور ریاستی اداروں کو ذاتی جاگیر بنانے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکمران آتے جاتے رہتے ہیں لیکن ریاستی منصوبے ہمیشہ عوام کی ملکیت ہوتے ہیں۔ عوام کے ٹیکس سے بننے والے اداروں پر ذاتی نام یا تصویر لگانا ریاستی شفافیت اور جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔
اسی دوران صحافی محمد عمیر نے دعویٰ کیا کہ:
"جناح اسپتال میں ٹراما سینٹر تحریک انصاف کی حکومت نے بنایا تھا، نگران حکومت نے اسے جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام دیا، اور اب اسے مریم نواز سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے منصوبوں پر تختیاں لگانے کا عمل تین سال بعد بھی جاری ہے۔"

M2


ایک اور تنقیدی آواز صحافی اویس حمید کی ہے، جو لاہور کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میو ہسپتال کی حالت پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"جناح نہیں، مریم نواز لاہور میں جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام بدل کر مریم نواز کے نام پر رکھ دیا گیا ہے، جبکہ میو ہسپتال کی وارڈز میں مریض پنکھے گھر سے لے کر آ رہے ہیں۔"

M1

دوسری جانب حکومتی حلقوں کی جانب سے ان خبروں کی سختی سے تردید کی جارہی ہے۔ سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر کہا ہے کہ "جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور" کا نام "جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور" ہی ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی زیر غور نہیں۔ پنجاب حکومت کے مالی سال 2025-26 کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں فنڈنگ ” جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی“ کے نام سے ہی رکھی گئی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ امراض قلب اور دیگر بیماریوں کے عالمی معیار کے جدید علاج کے لیے 14 نئے ہسپتال نواز شریف میڈیکل ڈسٹرکٹ میں قائم ہوں گے، جس کی ماسٹر پلاننگ تکمیل کے قریب ہے۔ حقائق کی تصدیق کے بعد خبر دینے کی درخواست ہے۔

ان کے علاوہ وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے ایک وضاحتی بیان میں ان دعوؤں کو غلط اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا:
حکومتِ پنجاب کے بارے میں یہ فیک نوٹیفیکیشن زیرِ گردش ہے، جس کی سختی سے تردید کی جاتی ہے، کسی ہسپتال کا نام نہیں بدلا جارہا۔

M3

ان کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن اور کچھ سوشل میڈیا صارفین غیر ضروری طور پر حکومت کے صحت کے شعبے میں کیے گئے اقدامات کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔


سوشل میڈیا پر کئی صارفین اس طرزِ عمل کو "سیاسی خودنمائی" اور "جمہوری اقدار کے خلاف" قرار دے رہے ہیں۔ عوامی حلقوں میں یہ سوال اب کھل کر اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر اسپتال، اسکول، کارڈز اور ہر منصوبہ کسی ایک خاندان کے نام سے منسوب کیا جائے تو کیا یہ ریاستی اداروں کی توہین نہیں؟

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب کسی حکمران شخصیت نے منصوبوں پر اپنا یا اپنے خاندان کا نام دیا ہو، لیکن اس بار عوامی ردعمل شدید ہے۔ بنیادی تنقید یہ ہے کہ اگر عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بننے والے اداروں پر سیاسی نام لکھے جائیں گے، تو پھر یہ ادارے ریاست کے نہیں بلکہ فرد کی ملکیت محسوس ہونے لگیں گے۔

عاصم ارشاد

عاصم ارشاد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس