جولائی 2025 کی ایک گرم دوپہر کو لاہور کے ایک بڑے سرکاری اسپتال کے باہر انتظار میں بیٹھے 64 سالہ حبیب اللہ اپنے ہاتھ میں ٹیسٹ رپورٹس کا پلندہ پکڑے دھوپ سے بچنے کے لیے دیوار کے سائے میں دبکے بیٹھے تھے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کتنے دن سے اسپتال کے چکر لگا رہے ہیں تو انہوں نے بس اتنا کہا کہ ڈاکٹر تو ملتا نہیں، کمپیوٹر خراب ہے، پرچی نہیں بنی۔ ایکسرے کی مشین کل سے خراب ہے اور میں صرف ایک چیک اپ کے لیے پانچ دن سے آرہا ہوں۔
یہ منظر کسی ایک اسپتال کا نہیں بلکہ پاکستان کے اکثر سرکاری اسپتالوں کی اصل کہانی ہے، جہاں مریض خوار ہیں اور افسر شاہی آرام دہ دفاتر میں خوشحال ہے۔
سرکاری اسپتال جنہیں غریب عوام کی آخری امید سمجھا جاتا ہے، ان کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ بدتر ہو رہی ہے۔ اسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی کمی، دوائیوں کا فقدان، مشینری کی خرابی، صفائی کا فقدان اور ڈاکٹروں کی عدم دستیابی اب معمول کی بات ہے۔ مریض لائنوں میں کھڑے ہوتے ہیں، گھنٹوں انتظار کرتے ہیں اور آخر میں یا تو پرچی نہ بننے کا بہانہ سننے کو ملتا ہے یا یہ کہ ڈاکٹر راؤنڈ پر ہے، کل آنا۔
دوسری جانب ان اسپتالوں کے ایڈمن بلاکس میں بیٹھے اعلیٰ افسران کی دنیا مختلف ہے۔ ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے، چائے اور بسکٹ کے ساتھ اجلاس کرتے یہ افسران وہ فائلیں دیکھ رہے ہوتے ہیں، جن میں تعمیر و مرمت، مشینری کی خریداری اور سہولیات کی فراہمی کے بڑے بڑے دعوے درج ہوتے ہیں۔ لیکن ان دعووں کا زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
بجٹ ہر سال جاری ہوتا ہے، فنڈز بھی مختص کیے جاتے ہیں، لیکن مریض کی حالت نہیں بدلتی۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس نظام کا ذمہ دار کون ہے؟

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سرکاری اسپتال کے ایک سابق میڈیکل سپرانٹنڈنٹ ڈاکٹر شاہد حسین نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ صحت کے نظام میں افسر شاہی کا کردار حد سے بڑھ چکا ہے۔ اصل ڈاکٹرز اور عملہ پالیسی سازی سے دور ہیں۔ وہ جو زمین پر کام کرتے ہیں، ان کی کوئی سنتا نہیں۔ سب کچھ فائلوں میں ہوتا ہے اور جو فائل اچھی زبان میں لکھی جائے، وہی منظور ہو جاتی ہے۔
سماجی کارکن اور صحت کی مہمات میں متحرک آمنہ خالد نے کہا کہ حکومت صحت کے بجٹ کو صرف اعلان کی حد تک سنجیدہ لیتی ہے۔ گراونڈ پر نہ دوائیاں ملتی ہیں، نہ تربیت یافتہ نرسز اور عملہ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک ہسپتال میں سینکڑوں افراد کی جان ایک پرانے وینٹیلیٹر پر لٹکی ہوتی ہے اور نئے خریدنے کے کاغذ کہیں دفتروں میں الجھے رہتے ہیں۔
مریضوں کی نمائندگی کرنے والے شہری محمد فہیم جو کہ کئی بار اپنی والدہ کے علاج کے لیے سرکاری اسپتال کے چکر کاٹ چکے ہیں کہتے ہیں کہ ہم غریب لوگ تو امید ہی کرتے ہیں کہ سرکاری علاج ہوگا۔ لیکن یہاں تو غریب ہونا جرم بن چکا ہے۔ کبھی ڈاکٹر نہیں ہوتا، کبھی دوا نہیں اور اگر کچھ ہو بھی تو رویہ ایسا کہ جیسے ہم حق لینے نہیں بلکہ مانگنے آئے ہوں۔
یہ وہ فضا ہے، جہاں ایک طرف مریض زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوتے ہیں اور دوسری طرف کاغذی کارروائیاں، فنڈز کے اجراء کی تاخیر اور کمیشن کا کلچر جاری ہوتا ہے۔ اسپتالوں کی حالتِ زار کی ایک بڑی وجہ یہی بیوروکریٹک نظام ہے جہاں فیصلہ ساز زمینی حالات سے ناواقف ہوتے ہیں۔
حکومت کی طرف سے بارہا اصلاحات اور پروگراموں کا اعلان کیا گیا، جیسے صحت کارڈ، ڈیجیٹل نظام، خودکار پرچیاں، مگر ان کا فائدہ صرف انہی کو ہوتا ہے جنہیں یہ نظام چلانے کا اختیار حاصل ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پرائیویٹ ہسپتال کا خرچ نہیں اٹھا سکتا، تو اس کے لیے سرکاری اسپتال ہی آخری سہارا ہے۔ مگر وہاں کا حال دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مریض کی مجبوری پر ایک پورا نظام پل رہا ہے۔ سرکاری خریداریوں میں غیر شفافیت، کنٹریکٹرز کی ملی بھگت اور سیاسی مداخلت وہ حقائق ہیں جنہیں سب جانتے ہیں مگر کوئی بولتا نہیں۔

اب وقت آ چکا ہے کہ حکومت اور صحت کے ادارے اپنی ترجیحات پر نظرثانی کریں۔ مریض کی عزت، علاج کی سہولت اور عملے کی تربیت پر سرمایہ لگانا ہوگا۔ افسر شاہی کو جواب دہ بنانا ہوگا اور ان کی کارکردگی کا پیمانہ اجلاسوں کی تعداد کی بجائے مریض کی تکلیف سے جوڑنا ہوگا۔
یہ بھی ضروری ہے کہ مقامی سطح پر اسپتالوں کو خود مختار بنایا جائے، تاکہ وہ فوری فیصلے کر سکیں۔ شکایت کے ازالے کا نظام متحرک کیا جائے اور میڈیا کو کھلے طور پر ان معاملات کی کوریج کی اجازت دی جائے تاکہ عوامی دباؤ سے بہتری ممکن ہو۔ صرف بجٹ بڑھانے سے نظام درست نہیں ہوگا، جب تک اس نظام کی شفافیت، نگرانی اور نیت میں بہتری نہ آئے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا، تو ہسپتال صرف عمارتوں کا نام رہ جائیں گے اور وہاں آنے والے مریض صرف اعداد و شمار۔ وہ انسان نہیں، جن کی زندگی، وقت اور عزت ایک اچھی طبی سہولت کی منتظر ہوتی ہے اور جب معاشرے میں سب سے کمزور شخص کی امید ٹوٹ جائے، تو نظام ٹوٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ وقت ہے کچھ بدلنے کا، ورنہ آنے والی نسلیں صرف تاریخ پڑھیں گی کہ کیسے ایک ملک میں علاج کی سہولت ایک خواب بن گئی تھی۔