غزہ میں جاری خون ریز جنگ کے خاتمے کی اُمیدیں روشن ہونے لگی ہیں کیونکہ 60 دن کی جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے پر حماس کی جانب سے’مثبت اشارے’سامنے آرہے ہیں۔
اسرائیلی ٹی وی ‘چینل 14’ کے مطابق مجوزہ معاہدہ 10 زندہ اسرائیلی قیدیوں کے بدلے 1000 فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر مبنی ہے۔ یہ امریکی معاہدہ درج ذیل نکات پر مبنی ہے۔
- 10 زندہ اسرائیلی قیدیوں کے بدلے کم از کم 1000 فلسطینی قیدیوں کی رہائی
- 15 اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی واپسی تین مراحل میں 60 دن کی مدت کے دوران ہوگی۔
- قیدیوں کا تبادلہ بغیر کسی تقریب یا مظاہرے کے خاموشی سے کیا جائے گا۔
فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور انسانی امداد
اسرائیلی قیدیوں کے بدلے 1000 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی تجویز ہے جن میں 100 سے زائد عمر قید کی سزا یافتہ افراد بھی شامل ہیں۔ معاہدے کے تحت دسیوں ہزار امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوں گے۔ اسرائیل جنوبی غزہ میں امدادی مراکز کے تسلسل پر زور دے رہا ہے۔
فوجی انخلا
آٹھ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد شمالی غزہ سے اسرائیلی فوج کا انخلا شروع ہو گا۔ ساتویں دن جنوبی غزہ کے مخصوص علاقوں سے بھی فوجی انخلا کیا جائے گا۔ انخلائی حدود کے تعین کے لیے تکنیکی مذاکرات بھی کیے جائیں گے۔
چار نکاتی مذاکراتی ایجنڈا
امریکی ضمانت کے ساتھ 60 روزہ جنگ بندی کے بعد بھی مذاکرات جاری رہیں گے۔ ان مذاکرات کا چار نکاتی ایجنڈا درج ذیل ہے:
- باقی ماندہ قیدیوں کا تبادلہ
- غزہ میں طویل المدتی سیکیورٹی انتظامات
- جنگ کے بعد غزہ کا نظم و نسق
- مستقل فائر بندی کا باقاعدہ اعلان
دسویں دن حماس تمام قیدیوں سے متعلق معلومات فراہم کرے گی جن میں ان کی زندگی، موت اور طبی رپورٹس تک شامل ہوں گی۔ جواباً اسرائیل 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے گرفتار تمام فلسطینی قیدیوں کی تفصیلات فراہم کرے گا۔
ثالثی کردار:
امریکہ، مصر، اور قطر اس معاہدے کے ضامن ہوں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جنگ بندی کے دوران سنجیدہ مذاکرات جاری رہیں۔
متنازع نکات:
اسرائیلی میڈیا کے مطابق معاہدے میں بعض اختلافی نکات تا حال باقی ہیں۔ جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
- اسرائیل چاہتا ہے کہ حماس جنگ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کرے جس کی توثیق امریکی نمائندہ اور صدر کریں گے۔
- اسرائیل بعض فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مخالف ہے۔
- حماس کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل 18 مارچ سے قبل والی پوزیشن پر واپس جائے۔
- امداد کی تقسیم پر بھی اختلاف ہے: اسرائیل ‘غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن’ کے ذریعے امداد چاہتا ہے جبکہ حماس اقوام متحدہ کے اداروں کو ترجیح دے رہی ہے۔
تازہ ترین پیش رفت:
اسرائیلی ویب سائٹ ‘وائی نیٹ‘ کے مطابق حماس نے 60 دن کی فائر بندی کی تجویز پر مثبت جواب دے دیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل معاہدے پر آمادہ ہے اور حماس کے جواب کا منتظر ہے۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ‘ٹروتھ سوشل’ پر کہا کہ اسرائیل معاہدے کی شرائط سے متفق ہے اور اب فیصلہ حماس کے ہاتھ میں ہے۔ اب ثالثی ممالک حتمی تجویز پیش کریں گے۔ امید ہے کہ حماس اس معاہدے کو قبول کرے گی کیونکہ اس کے بعد صورت حال بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہو گی۔
اگر یہ معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ نہ صرف جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار کرے گا بلکہ انسانی بحران میں کمی، علاقائی استحکام اور امن مذاکرات کے نئے دور کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔