وزیر دفاع اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ آصف کے حالیہ بیان کو ہمارے دوست محمد بلال غوری نے قومی اخبار روزنامہ ‘جنگ’ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں بظاہر حقیقت پسندی اور جرات اظہار کی ایک مثال بن کر پیش کیا۔ مگر درحقیقت یہ تحریر ایک ایسے بیانیے کو ‘شعوری یا غیر شعوری’ طور پر’جواز’ فراہم کرتی ہے جسے قوم دہائیوں سے بھگت رہی ہے۔
یہ وہی بیانیہ ہے جو ہر’آمر’ کے اقتدار کو’دوام’ دینے کے لیے تراشا جاتا ہے اور ہر جمہوری حکومت کی ‘بے بسی’ کو ‘تقدیر’ بنا کر پیش کرتا ہے۔ اس کالم میں جہاں خواجہ آصف کی سچ گوئی کو سراہا گیا وہیں پاکستان کے لیے ‘ہائبرڈ نظام’ کو نہ صرف ایک قابل قبول بلکہ ایک ”فطری مجبوری“ کے طور پر پیش کیا گیا، گویا جمہوریت ایک ”مہنگی، ناکام اور غیر ضروری ضد“ ہو، جس کا نعم البدل کسی مفروضہ عقلیت کے تحت ہائبرڈ سسٹم میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یہی نقطہ اس پورے بیانیے کی جڑ ہے جس پر خاموشی اختیار کرنا یا اسے معمول کا حصہ سمجھنا ایک ”قومی جرم“ کے مترادف ہے۔
کیا ہر سچ صرف اس لیے ”معتبر“ مان لیا جائے گا کہ وہ ایک تجربہ کار سیاستدان کی زبان سے نکلا؟ کیا جمہوری اقدار کی پامالی پر”پردہ“ ڈالنے والے بیانات کو محض اس لیے سراہا جائے گا کہ وہ ”حقیقت پسندانہ“ لگتے ہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ ہر آمریت اپنے قیام کے وقت خود کو وقت کی ضرورت، قومی سلامتی یا عوامی فلاح کا تقاضا بنا کر پیش کرتی ہے۔ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک ہر دور میں یہی کہا گیا کہ یہ عبوری بندوبست ہے لیکن ”عبور کا پل“ کبھی مکمل نہ ہو سکا اور قوم مسلسل ایک دائرے میں گھومتی رہی۔
برادرم بلال غوری کا قلم کئی جگہوں پر حقیقت نگاری کے بجائے ”فکری غنودگی“ میں نظر آتا ہے۔ وہ ہائبرڈ سسٹم کو ہائبرڈ گاڑیوں، بیجوں اور حیوانی دوغلی نسلوں سے تشبیہ دے کر عام قاری کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کوئی ”انہونی یا غیر فطری“ شے نہیں بلکہ ایک سمارٹ، موزوں اور جدید ماڈل ہے جو محدود وسائل میں بہترین نتائج دے سکتا ہے۔ مگر یہ مثالیں، خواہ کتنا ہی ادبی رنگ لیے ہوں، دراصل ایک ”غیر جمہوری بندوبست“ کو ”حسنِ تعبیر“ کے پردے میں چھپانے کی کوشش ہیں۔
کیا دوغلی نسل کا خچر، جو نہ گھوڑا ہوتا ہے نہ گدھا مگر دونوں کا بوجھ ڈھوتا ہے، کسی قوم کے سیاسی مستقبل کی علامت بن سکتا ہے؟ کیا ایک ایسا بیج، جو مصنوعی طور پر تیار کیا جائے، اپنے اندر زمینی حقیقتوں کے خلاف ”ارتقائی مزاحمت“ رکھتا ہے، کبھی ”قدرتی ثمر“ دے سکتا ہے؟ اگر نہیں، تو ہم ایک ”سیاسی خچر“ سے ”جمہوریت کی سواری“ کا خواب کیوں دیکھ رہے ہیں؟
ہائبرڈ کار ایک سائنسی ایجاد ہے، اس کا موازنہ ایک ایسے سیاسی نظام سے کرنا جس میں عوام کے ووٹ، دستور، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے تقدس کو داؤ پر لگا دیا گیا ہو، درحقیقت عوامی شعور کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک مہذب، نرم لہجے میں ”جمہوریت کی قبر پر پھول چڑھانے“ جیسا عمل ہے، جسے کسی بھی باشعور قاری کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔
کالم میں عمران خان اور تحریک انصاف پر جو تنقید کی گئی وہ درست سہی لیکن یہ تنقید غیر متوازن رہی۔ اگر تحریک انصاف ”سلیکٹڈ“ تھی تو موجودہ حکومت ”ری انسٹالڈ“ سے زیادہ کچھ نہیں مگر اس طرف اشارہ تک نہیں کیا گیا۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ تنقید کا مرکز ایک مخصوص سیاسی جماعت ہے، نہ کہ نظام کی ساخت یا اُس کی اصل خرابی۔
بلال غوری نے خواجہ آصف کے بیان کو سچ بولنے کی ہمت سے تعبیر کیا لیکن وہ یہ بھول گئے کہ سچ کہنا کافی نہیں ہوتا، اصل بات یہ ہے کہ سچ کس کو کہا جا رہا ہے اور کس نیت سے۔ اگر ایک وزیر خود اعتراف کر رہا ہے کہ اس کے پاس اختیارات نہیں تو سوال یہ بنتا ہے کہ وہ منصب پر کیوں براجمان ہے؟ کیا وہ عوام کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ووٹ بے معنی ہو چکا ہے؟ کیا وہ جمہوریت کی روح کو دفن کرنے کی کارروائی میں شریک ہے یا صرف مبصر بن کر تالیاں بجا رہا ہے؟
کالم میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ عوام کو اس سے غرض نہیں کہ کون ”حکومت“ کر رہا ہے، بس روز مرہ زندگی بہتر ہونی چاہیے۔ یہ ایک نیم سچ ہے جسے ”مکمل سچ“ بنا کر پیش کرنا عوامی شعور کی توہین ہے۔ کیا یہ سوال نہیں بنتا کہ اگر حکومت کی ذمہ داری صرف عوامی سہولت ہے تو پھر آئین، قانون، پارلیمنٹ اور عدلیہ جیسے ادارے کیوں قائم کیے گئے؟ کیا ہم محض پیٹ بھرنے کو قومی ترقی کا معیار بنا لیں؟ اگر ہاں تو پھر آمریت اور بادشاہت میں کیا فرق باقی رہ جائے گا؟ یہ کہنا کہ ہائبرڈ ماڈل ایک وقتی ضرورت ہے، درحقیقت اس سسٹم کو معمول پر لانے کی کوشش ہے۔
بلال غوری نے دیگر ممالک جیسے ایران، ہنگری اور وینزویلا کی مثال دے کر گویا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان تنہا نہیں جو اس راستے پر چل رہا ہے۔ لیکن کیا وہ یہ بتانا بھول گئے کہ ان ہی ممالک میں آزادی اظہار، انسانی حقوق اور سیاسی استحکام کس حال میں ہیں؟ کیا ان ممالک کے عوام اپنے نظام پر مطمئن ہیں؟ کیا ہم بھی انہی راہوں پر چل کر وہی ”نتائج“ چاہتے ہیں؟
خواجہ آصف کی بات کو اگر مکمل سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے تو وہ ایک بے بس سیاستدان کی عاجزانہ فریاد لگتی ہے، نہ کہ کوئی دانشورانہ سیاسی نظریہ۔ اُن کی باتوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جب عوامی نمائندے ریاستی اداروں کے سامنے لاچار ہو جائیں تو بہترین راستہ یہی ہے کہ ان کے ساتھ مل کر نظام چلایا جائے۔ یہ سوچ کمزوری کا عذر ہے، شعور نہیں۔
برادرم بلال غوری جیسے پڑھے لکھے، سنجیدہ اور باخبر کالم نگار سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ اس بیانیے کو اتنی سہولت سے قبول کریں گے اور اپنی قلم سے اسے نرمی، فصاحت اور تمثیل کے پردے میں لپیٹ کر عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ اُن کی تحریر میں اس نظام کی ساخت، نقصانات، آئینی خلاف ورزیوں، پارلیمانی بے توقیری اور عدالتی غیر جانبداری جیسے اہم نکات کا مکمل فقدان نظر آتا ہے۔
آج کا باشعور قاری سوال کرتا ہے کہ آخر کب تک ہم ”تجربات“ کی بھٹی میں جھونکے جاتے رہیں گے؟ کیا ہر آنے والا وقت ہمیں مزید بے بس، مزید محتاج اور مزید محکوم بناتا رہے گا؟ کیا ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت نہیں؟ کیا ہمیں یہ سوچنے کا حق نہیں کہ اگر 76 سال بعد بھی ہمیں ہائبرڈ نظام کو وقتی مجبوری کے طور پر قبول کرنا ہے، تو ہماری سیاسی دانش کہاں کھڑی ہے؟
اس وقت جب قوم شدید بحرانوں سے دوچار ہے، جب عوام بے یقینی،بیروزگاری اور معاشی تباہ حالی کا شکار ہیں، اُس وقت ایسے بیانیے کو پیش کرنا کہ جیسے یہ سب کچھ کسی عقلِ کل کے تحت ہو رہا ہے اور یہی بہترین ماڈل ہے، دراصل اس المیے پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ قوموں کی تاریخ میں وہ لمحہ سب سے خطرناک ہوتا ہے جب سچ کو اس لیے قبول کیا جائے کہ جھوٹ بہت پرانا ہو چکا ہو۔
محمد بلال غوری کے کالم نے ہائبرڈ ماڈل کو جس طرح قابلِ قبول بنایا، وہ نہ صرف جمہوریت بلکہ قلم کی امانت داری پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ مہذب انداز میں سچ کو لپیٹ کر پیش کرنا بھی بعض اوقات جھوٹ کی نئی شکل بن جاتا ہے اور یہی اس تحریر کی اصل کمزوری ہے۔
Author
-
سینئر صحافی، کالم نگار اور بلاگر ہیں، پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
View all posts