ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے ایران-اسرائیل 12 روزہ جنگ کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر آذربائیجان کے شہر خانکیندی میں اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے 17ویں سربراہ اجلاس میں شرکت کی۔
عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق اجلاس میں ایرانی صدر سمیت رکن ممالک کے سربراہان نے علاقائی استحکام، تعاون اور موجودہ جیو پولیٹیکل صورتحال پر اظہار خیال کیا۔
ای سی او اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر نے ایران-اسرائیل جنگ کا ذکر کرتے ہوئے اسرائیل پر شدید تنقید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 12 دنوں میں اسرائیل نے وحشیانہ جارحیت جاری رکھی، اپنے مشن کے علاقوں سے باہر فوجی تنصیبات، یونیورسٹیوں کے پروفیسروں اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نگرانی میں موجود پرامن جوہری تنصیبات اور عوامی انفراسٹرکچر پر بھی حملے کیے، جس سے وسیع انسانی اور مالی نقصان ہوا۔
ای سی او اجلاس کے موقع پر ایرانی صدر کی پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف، تاجک صدر امام علی رحمان اور ترک صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ پاکستانی اور ایرانی حکام کے درمیان ملاقات میں ایران-اسرائیل جنگ کے اثرات اور خطے میں کشیدگی پر بھی گفتگو ہوئی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے فیصلے پر ایران کی ستائش کی اور اسرائیلی جارحیت کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
انہوں نے ایران کے لیے عالمی فورمز پر پاکستان کی سفارتی حمایت کا اعادہ کیا اور خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے پاکستان کے اہم کردار پر زور دیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ای سی او اجلاس سے خطاب میں کہاکہ ایران-اسرائیل جنگ اور انڈیا-پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ جیو پولیٹیکل ایجنڈے خطے میں افراتفری اور عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔
انہوں نے 10 ممالک پر مشتمل یوریشین بلاک پر زور دیا کہ علاقائی تعاون کی اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایران پر اسرائیلی حملہ غیر قانونی، غیر ضروری اور بلاجواز تھا، جو ایک خطرناک رجحان کا مظہر ہے۔
ای سی او اجلاس میں خطے میں امن، معیشت اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ عزم کا اظہار کیا گیا۔