Follw Us on:

واقعہ کربلا، حضرت امام حسینؑ کی شہادت تک بات کیسے پہنچی؟

زین اختر
زین اختر
Website web image logo
مام حسینؑ کا یزید کی بیعت سے انکار محض ایک سیاسی فیصلہ نہ تھا، بلکہ ایک دینی فریضہ تھا۔ (فوٹو: کشمیر ٹائمز)

سن 61 ہجری کا محرم، تاریخِ اسلام کا وہ لمحہ ہے جس نے امتِ مسلمہ کو نہ صرف جھنجھوڑا بلکہ ہمیشہ کے لیے یہ سبق بھی دے دیا کہ سچ اور باطل کی جنگ صرف تلواروں سے نہیں، اصولوں سے جیتی جاتی ہے۔ کربلا کا واقعہ کوئی عام معرکہ نہیں تھا، یہ دو مختلف نظریات، دو طرزِ حکومت، اور دو راستوں کا تصادم تھا۔ ایک طرف اقتدار کی سیاست، دوسری جانب اصول کی حفاظت۔ اور اس کہانی کا مرکزی کردار حضرت امام حسینؑ تھے، جنہوں نے جان تو دے دی، مگر ضمیر کا سودا نہ کیا۔

یہ بات یزید کی خلافت کے اعلان سے شروع ہوتی ہے۔ یزید بن معاویہ کو اقتدار تو مل گیا، مگر اس کی ساکھ، طرزِ زندگی، اور مذہبی و سیاسی رویہ ایسا نہ تھا جو خلافتِ راشدہ کے معیار پر پورا اترتا۔ شراب، ناچ، سازشیں، ظلم، اور دین کے نام پر اقتدار کی مضبوطی، یہ سب وہ چیزیں تھیں جو یزید کو ایک جابر حکمران ثابت کرتی تھیں۔ مدینہ، مکہ، اور کوفہ کے اہلِ علم و تقویٰ جانتے تھے کہ یہ خلافت اب خلافت نہیں رہی، بلکہ بادشاہت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ایسے میں امام حسینؑ کا یزید کی بیعت سے انکار محض ایک سیاسی فیصلہ نہ تھا، بلکہ ایک دینی فریضہ تھا۔

مدینہ میں بیعت نہ دینے کے بعد امام حسینؑ کو واضح پیغام ملا کہ یزید کی طرف سے ان کی جان خطرے میں ہے۔ وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ حرم کے تقدس میں محفوظ رہیں۔ مگر مکہ میں حج کے دوران یہ اطلاعات ملیں کہ یزید کے کارندے وہاں بھی پہنچ چکے ہیں۔ امامؑ نے حج کو عمرے میں بدل دیا اور کربلا کی طرف روانگی کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران کوفہ کے لوگوں نے خطوط اور پیغام بھیج کر امام کو دعوت دی کہ وہ آئیں، اور وہ یزید کے خلاف ان کی قیادت کریں گے۔

مدینہ میں بیعت نہ دینے کے بعد امام حسینؑ کو واضح پیغام ملا کہ یزید کی طرف سے ان کی جان خطرے میں ہے۔ (فوٹو: پاکستان میٹرز)

امام حسینؑ کوفہ کی طرف بڑھے، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ حالات بدل چکے ہیں۔ کوفہ پر یزید کا گورنر عبید اللہ بن زیاد قابض ہو چکا تھا، جس نے نہ صرف مسلم بن عقیل کو شہید کیا بلکہ کوفہ کے لوگوں کو امام کی حمایت سے روکنے کے لیے ظلم کی انتہا کر دی۔ امام حسینؑ جب کربلا کے میدان میں پہنچے تو انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ کوفہ کے لوگ اب ان کے ساتھ نہیں، مگر وہ واپس بھی نہیں جا سکتے تھے، کیونکہ یہ اب صرف ان کا مسئلہ نہ رہا تھا، بلکہ پورے دین کا مسئلہ بن چکا تھا۔

کربلا میں امامؑ کے ساتھ ان کے قریبی رشتہ دار، ساتھی اور اہلِ بیت کے افراد تھے، کل ملا کر 72 لوگ۔ اور ان کے مقابل ہزاروں کا لشکر۔ یزید کا حکم واضح تھا: بیعت کرو، یا فنا ہو جاؤ۔ امام حسینؑ نے بیعت سے انکار کیا اور کہہ دیا: “مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔” یہ جملہ صرف انکار نہیں تھا، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے اصولِ حیات کا اعلان تھا۔

پانی بند کر دیا گیا، خیموں کا گھیراؤ کیا گیا، اور پھر عاشورہ کا وہ دن آیا جب ظلم اپنی انتہا پر تھا۔ امام حسینؑ کے ساتھی ایک ایک کر کے شہید ہوتے گئے، بھائی، بھتیجے، بیٹے، کوئی بھی محفوظ نہ رہا۔ آخر میں خود امام حسینؑ میدان میں اُترے، پیاس کی شدت سے نڈھال، زخمی، مگر دل میں یقین۔ وہ لڑے، لڑتے رہے، اور جب زمین پر گرے تو ظلم نے ان کے سر کو جسم سے جدا کر دیا۔

یہ وہ لمحہ تھا جس نے وقت کو روک دیا۔ شہادت ہو گئی، مگر شکست نہ ہوئی۔ یزید جیت کر بھی ہار گیا، اور حسینؑ مر کر بھی زندہ رہے۔ کربلا کی یہ قربانی کسی تخت یا تاج کے لیے نہ تھی، یہ ایک ایسے نظام کے خلاف اعلانِ بغاوت تھی جو دین کے نام پر جبر کا نام بن چکا تھا۔

کربلا ہمیں سکھاتی ہے کہ خاموشی کبھی حق کا ساتھ نہیں دیتی۔ امام حسینؑ نے اپنی جان دے کر یہ واضح کر دیا کہ جب وقت کا حکمران دین کو اپنی مرضی سے بدلنے لگے، تو خاموش رہنا جرم بن جاتا ہے۔ انہوں نے جنگ نہیں کی، انقلاب کیا۔ انہوں نے تلوار نہیں، قربانی سے بات منوائی۔ اور آج، چودہ سو سال بعد بھی، ہر مظلوم، ہر حق پرست، اور ہر آزاد روح کے دل میں یہی آواز گونجتی ہے: “حسینؑ صرف ایک شخص کا نام نہیں، ایک نظریہ ہے، جو جھکتا نہیں، بکتا نہیں، ڈرتا نہیں۔”

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر عمر کا کہنا ہے کہ کربلا کی کہانی آج بھی جاری ہے، ہر اس جگہ جہاں حق اور باطل آمنے سامنے ہوں۔ سوال یہ نہیں کہ ہم کس کے ساتھ کھڑے ہیں، سوال یہ ہے کہ جب وقت آئے گا، تو ہم کھڑے بھی ہوں گے یا خاموش رہیں گے؟ امام حسینؑ کا سبق یہ ہے کہ اگر سچ پر ہو، تو تنہا بھی ہو تو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ سچ کبھی اکیلا نہیں مرتا، وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے، جیسے حسینؑ۔

Author

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس