برطانیہ میں 7 جولائی 2005 کو لندن میں ہونے والے خودکش حملوں کو بیس سال گزر چکے ہیں لیکن سیکیورٹی ماہرین ،سابق حکومتی عہدیداران اور انسدادِ دہشت گردی ادارے اب بھی اس سوال پر غور کر رہے ہیں کہ کیا آج برطانیہ پہلے سے زیادہ محفوظ ہے یا خطرات مزید پیچیدہ ہو چکے ہیں۔
ان حملوں میں چار خودکش بمباروں نے لندن کی پبلک ٹرانسپورٹ پر حملے کر کے 52 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ بعد ازاں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ مرکزی حملہ آور محمد صدیق خان کو پہلے بھی مشکوک سرگرمیوں میں دیکھا گیا تھا لیکن خفیہ ایجنسیاں ان تمام معلومات کو باہم جوڑنے میں ناکام رہیں۔

یہ حملے لندن میں 7 جولائی 2005 کو ہوئے جنہیں القاعدہ سے منسلک گروہ نے انجام دیا۔ حملوں سے قبل خان کو 2001 میں لیک ڈسٹرکٹ میں القاعدہ سے وابستہ تربیتی کیمپ میں اور 2004 میں ایک مشتبہ گروپ سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
حکام کے مطابق اُس وقت انٹیلیجنس ایجنسیوں کے پاس خان کے خلاف ٹھوس شواہد نہیں تھے، اسی لیے اسے تحقیقات کی ترجیح نہیں دی گئی۔ اس دوران ادارے ایک بڑے بم حملے آپریشن کریویس پر توجہ دے رہے تھے جو کہ زیادہ فوری خطرہ سمجھا جا رہا تھا۔
ان حملوں کے بعد برطانیہ میں انسدادِ دہشت گردی کے اداروں نے مشترکہ کارروائیوں، فوری معلومات کے تبادلے، اور خطرات کو ترجیحی بنیادوں پر جانچنے کے نظام کو بہتر بنایا۔ 2006 میں دہشت گردی کی تیاری کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا تاکہ پولیس مشتبہ افراد پر پہلے ہی کارروائی کر سکے۔

بعد ازاں آپریشن اوورٹ جیسے کیسز میں کامیاب کارروائیاں ہوئیں، جہاں خودکش حملوں کی تیاریوں کو بروقت روکا گیا۔ ساتھ ہی انٹرنیٹ پر انتہا پسند مواد کے پھیلاؤ کے خلاف اقدامات بھی کیے گئے جن میں آن لائن رول پلیئرز کی مدد سے مشتبہ افراد کو شناخت کیا جانے لگا۔
ڈیپٹی اسسٹنٹ کمشنر وکی ایونز کے مطابق حالیہ برسوں میں کم عمر مشتبہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن پر انٹرنیٹ پر موجود پرتشدد مواد کا اثر ہوتا ہے۔ بعض کیسز میں افراد دہشت گردی سے متاثر ہو کر تشدد کی طرف مائل ہوتے ہیں لیکن ان کی کوئی واضح نظریاتی وابستگی نہیں ہوتی۔

حالیہ برسوں میں 15 حملے رونما ہوئے جبکہ تینتالیس ایسے تھے جن کو آخری مراحل کو روکا گیا۔ تاہم ماہرین کے مطابق، خطرات کا دائرہ اب پہلے سے کہیں زیادہ وسیع اور متنوع ہو چکا ہے۔
مارٹن لاءکے تحت بڑے عوامی مقامات پر سیکیورٹی منصوبہ بندی لازمی قرار دی گئی ہے۔ ہوم سیکرٹری یویٹ کوپر کی جانب سے تنظیم پیلسٹائن ایکشن کو دہشت گردی کے قانون کے تحت کالعدم قرار دینے جیسے حالیہ اقدامات نے دہشت گردی کی تعریف اور اس کے دائرہ اختیار پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
سابق وزیراعظم سر ٹونی بلیئر نے کہا ہے کہ ہر فرد کی سب سے بنیادی آزادی یہ ہے کہ اسے تشدد سے تحفظ حاصل ہو۔ ان کے مطابق اصل سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ پالیسی اقدامات دہشت گردی جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں یا نہیں۔