پاکستان میں جاری معاشی بدحالی سیاسی بے یقینی اور ریاستی
اداروں پر اعتماد کے فقدان نے نوجوان طبقے کو شدید مایوسی سے دوچار کر دیا ہے۔ ملک چھوڑنے کے رجحان میں حالیہ برسوں میں جو غیر معمولی اضافہ ہوا ہے وہ محض روزگار یا تعلیم کے مواقع کی تلاش کا معاملہ نہیں رہا بلکہ ریاستی نظام پر عدم اعتماد کی علامت بن چکا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 میں آٹھ لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے روزگار کی غرض سے بیرون ملک ہجرت کی۔ 2024 میں بھی اعداد و شمار تقریباً اسی نوعیت کے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جو پاکستان میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی مناسب روزگار سے محروم رہے اور بہتر مستقبل کے لیے دوسرے ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔

پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے عالمی امور اور نوجوانوں کی سماجی نفسیات کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر کامران خان کا کہنا ہے کہ یہ صرف روزگار کی تلاش کا معاملہ نہیں بلکہ ایک گہری سماجی اور ریاستی مایوسی کا اظہار ہے۔ نوجوانوں کو محسوس ہوتا ہے کہ یہاں نظام ان کے لیے نہیں بنایا گیا۔ جب مسلسل غیر یقینی فضا میں جینا ہو تو بیرون ملک کی سمت دیکھنا فطری ردعمل ہے۔
ڈاکٹر کامران خان کے مطابق ملک میں کئی دہائیوں سے جاری سیاسی عدم استحکام اور ناقص طرز حکمرانی نے اعتماد کا وہ رشتہ توڑ دیا ہے جو نوجوانوں اور ریاست کے درمیان ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا جب اداروں میں بھرتی سیاسی بنیادوں پر ہو کرپشن روزمرہ کا معمول بن جائے اور پالیسی سازی میں نوجوانوں کی نمائندگی نہ ہو تو نئی نسل میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔

2023 کے دوران قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کے علاوہ ہزاروں نوجوانوں نے غیر قانونی ذرائع سے بھی ملک چھوڑنے کی کوشش کی جن میں سے کئی اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس رجحان کی ایک بڑی وجہ نظام پر عدم اعتماد ہے۔
ڈاکٹر کامران کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کا نظام پر عدم اعتماد کئی عوامل پر مشتمل ہے لیکن میرے خیال میں سب سے بڑا عدم اعتماد سیاسی عدم استحکام ہے، یہاں حکومتیں قائم تو ہو جاتی ہیں لیکن پھر ڈیلور کرنا بہت مشکل ہو جاتی ہیں، پاکستان کی تاریخ میں آج تک کوئی وزیر اعظم 5 سال کی مدت پوری نہیں کر سکا ، نظام عدل پر نوجوانوں کا اعتماد اٹھ چکا ہے ، میرے خیال میں کوئی ایسا ادارا نہیں کے جس پر نوجوان آنکھیں بند کر کے اعتماد کرتے ہوں

موجودہ حالات میں پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں غیر ملکی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور نجی ادارے بھی مہنگائی اور مالی دباؤ کے باعث بھرتیوں سے گریز کر رہے ہیں۔ ایسے میں ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے نوکری حاصل کرنا ایک مشکل ترین مرحلہ بن چکا ہے۔
پروفیسر احتشام کاظم کہتے ہیں کہ نوجوان صرف معاشی طور پر ہی نہیں بلکہ ذہنی اور سماجی طور پر بھی دباؤ کا شکار ہیں۔ جب ایک نوجوان یہ دیکھتا ہے کہ اس کی تعلیم اور محنت کا کوئی صلہ نہیں مل رہا، اور معاشرے میں میرٹ کے بجائے سفارش کا راج ہے، تو اس کے لیے مایوسی کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔
بیرون ملک جانے کے رجحان کی ایک اور اہم وجہ دنیا بھر میں مواقع کی دستیابی اور ترقی یافتہ معاشروں میں سہولیات کا بہتر نظام ہے۔ تاہم پروفیسر احتشام خبردار کرتے ہیں کہ بغیر منصوبہ بندی اور قانونی تیاری کے بیرون ملک جانا بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ قانونی ذرائع کا انتخاب کریں وہاں کے امیگریشن قوانین کو سمجھیں اور کوئی بھی قدم سوچ سمجھ کر اٹھائیں۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک، یورپ، اور شمالی امریکہ کی طرف رجوع کرتی ہے، جہاں تعلیم، روزگار اور بہتر معیارِ زندگی کے مواقع میسر ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہاں مقابلہ بھی سخت ہے اور کامیابی صرف اسی کو ملتی ہے جو تیاری کے ساتھ آئے۔
پیشہ ور افراد کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں سیاسی استحکام، شفاف گورننس، اور نوجوانوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے تو یہ ہنر مند اور باصلاحیت افراد ملک میں رہ کر بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر، یہ ذہنی و افرادی صلاحیت کا مسلسل زیاں ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان انجینئر رضوان تبسم، جنہوں نے حال ہی میں کینیڈا کے امیگریشن پروگرام کے لیے درخواست دی ہے، کہتے ہیں میں نے انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی ہے مگر تین سال سے نوکری کی تلاش میں ہوں۔ آخر کب تک والدین پر بوجھ بنے رہیں؟ جب یہاں راستہ بند ہو تو باہر جانا ہی واحد حل لگتا ہے۔
پاکستانی نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی ہجرت محض انفرادی فیصلے نہیں بلکہ ریاستی ناکامیوں کا عکس ہیں۔ جب تعلیم، روزگار اور تحفظ کے بنیادی عناصر دستیاب نہ ہوں تو نوجوان بہتر کل کی تلاش میں سرحدیں عبور کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ رجحان اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک ریاست ان مسائل کے بنیادی اسباب کو حل نہیں کرتی۔