Follw Us on:

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Whatsapp image 2025 07 08 at 19.30.49
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار( فائل فوٹو)

تیس برس کے طویل وقفے کے بعد گذشتہ جمعہ کی صبح جب میں عبدالشکور صاحب کے ہمراہ ڈھاکہ کے بین الاقوامی ائرپورٹ پر اترا تو صرف ائر پورٹ کا نام نہیں، سیاست،حکومت،پالیسیاں،ترجیحات  سمیت بہت کچھ بدل چکا تھا۔

سیاست بھی کسقدر بے رحم چیز ہے،زبر سے زیر اور ھست سے نیست ھونے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔جس نظام دروبست کو سنبھالنےاورجمنے میں دہائیاں لگتی ہیں ایک واقعہ،ایک حادثہ اسے پلٹ دیتا ہے کہ انسانی عقل اس کا جواز تراشنے سے عاجز رہ جاتی ہے۔ حسینہ واجد ہو کہ ضیاالرحمن،ایوب خان ہوکہ ضیاالحق ،کسی کو اس سے مفر نہیں۔

1994 میں اس ائرپورٹ کا نام ضیاالرحمان انٹرنیشنل ائرپورٹ (ZIA) تھا،جسے اب حضرت شاہ جلال انٹرنیشنل کا نام دے دیا گیا ہے۔اگر کوئ چیز نہیں بدلی تو وہ مذہب اور محبت ہے۔زبان،کلچر،خوراک،موسم،زمین،پھل اور پہناوے تو ہر چند سو میل بعد بدل جاتے ہیں۔

پاکستان کے دونوں حصوں میں یہی تفاوت تھا۔سڑک اور ریل کا رابطہ تو ممکن ہی نہ تھا،دلوں میں بال آجائے توفوجیں اور توپیں بھی باسیوں کو نہیں سنبھال پاتیں۔اغیار کی سازشوں کے پہلو بہ پہلو،سیاست کی نادانیوں اور حکام کی بے تدبیریوں نے جو دن دکھائے تاریخ اسے سقوط ڈھاکہ،سانحہ 1971،قیام بنگلہ دیش کے نام سے یادکرتی ہے،چند سالوں کےصبر آزما سکتہ کے بعد دونوں حصوں نے حقیقت کو قبول کرکے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔قوموں کی زندگی میں اتار چڑھاو،ابتلا و آزمائش تو ایک مستقل عمل ہے ۔

نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا

کہ صبح شام بدلتی ہیں اسکی تقدیریں

مگر حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی گولڈن جوبلی کو نئے بنگلہ دیش کا جامہ پہنانے کی کوشش کی جو انڈیا کے سامنے مکمل سیاسی،سفارتی،معاشی،عسکری سرنڈر سے عبارت تھا،اس مرتبہ غلطی کا بار حسینہ واجد کے کاندھوں پر تھا کیونکہ بنگلہ دیش کی نئی نسل اب پاکستان اور ہندوستان کے بیانئے کے بجائے اپنے دل و دماغ سے سوچنے سمجھنے کی استعداد پیدا کرچکی تھی،بنگلہ دیش کے مستقبل کا فیصلہ سیٹو،سنٹو،شملہ،تاشقند میں نہیں ڈھاکہ،چٹاگانگ،جیسور،کھلنا،سلہٹ،راج شاہی اورباریسال کے تعلیمی اداروں اور سڑکوں پر ہونا تھا۔ اور یہ ہوکر رہا

ہم صلیبوں پہ چڑھے،زندہ گڑے،پھر بھی بڑھے ہیں۔

فاشسٹ عوامی لیگ اور ہندوستان کی تائید رکھنےوالی مقتدرہ کے تمام تر جبراور ظلم کے باوجود بنگال کی سر سبز زمینوں سے خون کی روشنائی سے ایک نیا سورج طلوع کرکے سرفروش جوانیوں نے بنگلہ دیش کے پرچم کی معنویت میں مزید سنجیدگی اور گہرائی پیدا کردی ہے۔

جولائی 2024 کو یہاں دوسرا یوم آزادی کہا جاتا ہے،آج اس آزادی کی پہلی سالگرہ ہے۔ ایک امتحان ختم ہوا،ایک معرکہ سر ہوا، نئے چیلنجز،نئے مرحلے منہ کھولے کھڑے ہیں۔

دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا

یہ جولائ ہے، ہاتھوں میں دعاؤں کے گلاب اور آنکھوں میں امید کے چراغ لیے،میں اور عبدالشکور صاحب اس وقت بنگلہ دیش میں ہیں۔

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس