Follw Us on:

’اب میں دونوں بازوؤں سے ابو کو گلے لگا سکوں گی‘، پاکستانی کمپنی نے کیسے اردنی پناہ گزین لڑکی کو مصنوئی بازو پہنچایا؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Artificial hand.
سدرا اس وقت زخمی ہوئی تھی جب وہ نُصیرات اسکول میں پناہ لیے ہوئے تھی۔ (فوٹو: مائی الیکٹرک سپارکس)

آٹھ سالہ سدرا البور دینی ایک اردنی پناہ گزین کیمپ میں سائیکل چلاتے ہوئے خوشی سے مسکرا رہی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب وہ ایک سال بعد دوبارہ سائیکل چلا رہی تھی، جب غزہ میں ایک میزائل حملے میں اس کا بازو ضائع ہو گیا تھا۔

اس کی خوشی کی وجہ ایک نیا مصنوعی بازو تھا، جو پاکستان کے شہر کراچی میں ایک اسٹارٹ اپ کمپنی “بایونکس” نے تیار کیا۔

سدرا اس وقت زخمی ہوئی تھی جب وہ نُصیرات اسکول میں پناہ لیے ہوئے تھی، جو اسرائیلی حملوں سے بچنے کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ بن گیا تھا۔ سدرا کی والدہ صبرین نے بتایا کہ اس دن کا غمناک منظر اور غزہ کے تباہ حال اسپتالوں کی حالت ایسی تھی کہ سدرا کا بازو بچایا نہیں جا سکا۔

انہوں نے فون پر کہا، “وہ باہر کھیل رہی ہے، اور سب اس کے بازو کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ میں بیان نہیں کر سکتی کہ میری بیٹی کو خوش دیکھ کر مجھے کتنی خوشی ہوئی۔”

یہ بھی پڑھیں: مائیکروسافٹ کا پاکستان میں 25 سال بعد آپریشنز بند کرنے کا فیصلہ، وجہ کیا بنی؟

بایونکس ایک پاکستانی کمپنی ہے جو تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے سستے اور ہلکے مصنوعی بازو بناتی ہے۔ کمپنی نے ایک موبائل ایپ کے ذریعے سدرا کی بازو کی تصاویر لیں اور اس کا تھری ڈی ماڈل تیار کیا۔

اس طریقے سے ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھ کر بھی ان کی مدد ممکن ہو سکی۔

Artificial hand
بایونکس اب تک پاکستان میں 1,000 سے زائد مصنوعی اعضا فراہم کر چکی ہے۔ (فوٹو: مائی الیکٹرک سپارکس)

بایونکس کے سی ای او انس نیاز خود کراچی سے عمان گئے تاکہ سدرا کو یہ بازو دے سکیں۔ وہاں انہوں نے تین سالہ حبیبت اللہ سے بھی ملاقات کی، جو غزہ میں دونوں بازو اور ایک ٹانگ کھو چکی ہے۔ اس پروجیکٹ کو چندوں کی مدد سے ممکن بنایا گیا۔ سدرا کا بازو اردن کے “مفاز کلینک” نے سپانسر کیا، جبکہ پاکستانی عوام کی مدد سے حبیبت اللہ کے بازو بنائے گئے۔

ایک بایونکس بازو کی قیمت تقریباً 2500 ڈالر ہے، جو کہ امریکا جیسے ملکوں میں 10,000 سے 20,000 ڈالر کے مہنگے بازوؤں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اگرچہ یہ بازو اتنے جدید نہیں ہوتے، لیکن بچوں کے لیے یہ ہلکے اور کارآمد ہوتے ہیں۔

انس نیاز کہتے ہیں، “ہم ان بچوں کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں جو جنگی علاقوں میں ہیں اور جنہیں دنیا اکثر بھول جاتی ہے۔ ہمارا خواب ہے کہ یوکرین جیسے علاقوں میں بھی کام کریں اور مزید ہزاروں بچوں کی مدد کریں۔”

اقوام متحدہ کے مطابق، غزہ میں بچوں کے اعضا ضائع ہونے کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ صرف 2023 کے بعد سے کم از کم 7,000 بچے زخمی ہو چکے ہیں، اور تقریباً 4,500 لوگ معذور ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے غزہ کے صحت کے نظام کو “زمین بوس” قرار دیا ہے، جہاں دوائیں اور علاج کے آلات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

Artificial hand..
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے غزہ کے صحت کے نظام کو “زمین بوس” قرار دیا ہے، جہاں دوائیں اور علاج کے آلات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ (فوٹو: مائی الیکٹرک سپارکس)

برطانیہ میں پرو ایکٹو پروستھیٹک کلینک کے مینیجر اسد اللہ خان نے کہا، “ایسے حالات میں جب ڈاکٹر اور مریض ایک دوسرے تک نہیں پہنچ سکتے، ریموٹ طریقہ علاج بہت مؤثر ہے۔”

بایونکس اب تک پاکستان میں 1,000 سے زائد مصنوعی اعضا فراہم کر چکی ہے۔ یہ کام چندے، کمپنیوں کی مدد اور مریضوں کی فیس سے ممکن ہوا ہے۔ بچوں کو ہر 12 سے 18 مہینے بعد نیا بازو چاہیے ہوتا ہے، لیکن پرانے بازو کا زیادہ تر حصہ دوبارہ استعمال ہو جاتا ہے۔

بچوں کو مصنوعی بازو کے ساتھ مانوس کرنے کے لیے، بایونکس بعض اوقات ان بازوؤں پر آئرن مین یا ایلسا جیسے کارٹون کرداروں کے ڈیزائن بھی بناتی ہے، تاکہ بچے فخر سے انہیں پہن سکیں۔

سدرا نے اپنے بازو پر ایک چھوٹا سا بریسلٹ بھی پہنا ہے۔ پہلے جب وہ ہاتھ سے دل کا نشان بنانا چاہتی تھی تو کسی دوسرے سے مدد لیتی تھی، لیکن اب وہ خود یہ دل بنا سکتی ہے۔ اس نے دل کی شکل کا ایک فوٹو اپنے والد کو بھیجا، جو ابھی تک غزہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔

سدرا نے آہستہ سے کہا، “مجھے سب سے زیادہ جس بات کا انتظار ہے، وہ یہ ہے کہ میں اپنے دونوں بازوؤں سے اپنے ابو کو گلے لگا سکوں۔”

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس