Follw Us on:

کیا خیبر پختونخوا حکومت ہزاروں ملازمین کی برطرفی کی تیاری کر رہی ہے؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
خیبر پختونخوا حکومت کا سرکاری ملازمین کی برطرفی اور ریگولیٹری فورس کے قیام کا فیصلہ

خیبر پختونخوا حکومت نے حیران کن فیصلہ کرتے ہوئے نگران دورِ حکومت میں بھرتی ہونے والے 16 ہزار سرکاری ملازمین کو ملازمت سے برطرف کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ‘خیبر پختونخوا ملازمین برطرفی از خدمت بل 2025’ کے نام سے ایک بل تیار کیا گیا ہے جس کے تحت نگران دور حکومت میں غیر قانونی بھرتی ہونے والے ملازمین کو فوراً نوکریوں سے فارغ کر دیا جائے گا۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ قانون کے مطابق اور عوامی مفاد میں کیا گیا ہے۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف محکموں سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق تقریباً 8 ہزار ملازمین کی نشاندہی کی گئی ہےجن میں پولیس اور صحت کے محکمے کے ملازمین بھی شامل ہیں۔

اس بل کے تحت سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کے لئے ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس کے سربراہ ایسٹبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری ہوں گے۔ ان کے ساتھ ایڈووکیٹ جنرل، قانون، خزانہ اور انتظامیہ کے محکموں کے افسران بھی شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی برطرفیوں کے عمل کو آسان بنانے کے لئے ممکنہ پیچیدگیوں کا جائزہ لے گی اور اس فیصلے کے عملی نفاذ کی نگرانی کرے گی۔

اس بل کے تحت اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ متعلقہ ادارے اور محکمے فوراً ان ملازمین کے بارے میں نوٹیفکیشن جاری کریں گے تاکہ ان کی برطرفی کا عمل شروع کیا جا سکے۔ اس طرح کے اقدام سے صوبے کے سرکاری اداروں میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور غیر قانونی بھرتیوں کا خاتمہ ہوگا۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا اسمبلی میں “خیبر پختونخوا ریگولیٹری فورس بل 2025” بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس بل کے تحت صوبے میں ایک ایسی فورس قائم کی جائے گی جو مختلف شعبوں میں ریگولیٹری قوانین کو نافذ کرے گی اور ان کے خلاف ہونے والی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لئے کام کرے گی۔

اس فورس کو پولیس افسران کی طرح وسیع اختیارات دیے جائیں گے اور اس کا ہیڈ آفس صوبائی دارالحکومت پشاور میں قائم ہوگا۔ اس فورس کے مقاصد میں ماحولیاتی تحفظ، فوڈ سیفٹی، قیمتوں کی نگرانی اور دیگر اہم شعبوں میں قوانین کی پیروی کو یقینی بنانا شامل ہوگا۔

ریگولیٹری فورس کے زیر انتظام ہر ضلع میں ایک یونٹ قائم کیا جائے گا جس کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ہوگا۔ اس کی مدت تین سال ہوگی۔ تاہم وزیراعلیٰ کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ ڈی جی کو اس سے کم یا زیادہ مدت کے لئے تعینات کریں۔

خیال رہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی پنشن میں اصطلاحات کرنے پر صوبائی دارالحکومت پشاور میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا تھا، حکومت کی جانب سے اصطلاحات لانے پر سرکاری ملازمین صوبائی اسمبلی کے باہر احتجاجی دھرنا دیے ہوئے تھے، حکومت اور آل گورنمنٹ ایمپلائز کوارڈینیشن کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ کر دی تھی۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ پینشن اصلاحات کے نام پر ہمارے بچوں کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے، ہمارے ساتھیوں کو رات گئے گرفتار کیا گیا جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ایکس ( سابقہ ٹویٹر) پر صارفین نے دھرنے کی تصاویر اور ویڈیو شئیر کرتے ہوئے احتجاج کے حوالے سے خوب تبصرے کیے۔ صارفین کی جانب مظاہرین پر شیلنگ کو ظلم قرار دیا گیا اور حکومت پر کڑی تنقید کی گئی۔ صارفین کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنا حلال ہے جبکہ اپنے حق کے لیے باہر نکلنا حرام ہے۔

واضح رہے کہ یہ دونوں بل حکومت کے سخت اقدامات کا غماز ہیں جن کا مقصد صوبے میں شفافیت اور نظم و ضبط کو بڑھانا ہے۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں نہ صرف سرکاری محکموں میں اصلاحات کی راہ ہموار ہو گی بلکہ عوام کے اندر بھی حکومت کے بارے میں اعتماد بڑھے گا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس