پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے خلاف حکام نے ایک نیا اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جس سے نوجوانوں کی زندگیوں کو بچانے کی کوشش کی جائے گی۔
یورپ میں بہتر زندگی کی آرزو میں پاکستانی نوجوان سمندری اور زمینی راستوں پر خطرناک سفر کرنے پر مجبور ہیں اور اس کا خمیازہ کئی زندگیاں ضائع ہونے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
اب پاکستان کے امیگریشن حکام نے کم از کم 15 ممالک کے لیے سفر کرنے والے نوجوانوں کی سخت نگرانی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان کو انسانی اسمگلنگ کے خطرات سے بچایا جا سکے۔
ڈی پی اے کے مطابق نوجوانوں کو جو ان مخصوص 15 ممالک کے لیے سفر کر رہے ہیں ان کے سفر سے پہلے سخت تفتیش کریں گے۔
ان ممالک کو عام طور پر انسانی اسمگلرز یورپ پہنچنے کے لیے ٹرانزٹ روٹس کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
یہ فیصلہ بحیرہ روم اور بحرالکاہل میں ہونے والے متعدد کشتی حادثات کے بعد لیا گیا جن میں پاکستانی نوجوانوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان نوجوانوں کو یورپ پہنچانے کے لیے اسمگلر انہیں خطرناک راستوں پر سفر کراتے ہیں جس کی وجہ سے سرحدی محافظوں کی گولیوں کا سامنا اور سمندر میں ڈوبنے کا خطرہ شامل ہے۔
ڈی دبلیو کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ایڈوائزری اس وقت جاری کی گئی جب بحرالکاہل اور بحیرہ روم میں لیبیا اور مراکش سے غیر قانونی تارکین وطن کو یورپ لے جانے والی کشتیوں کے حادثات میں کئی پاکستانی نوجوانوں کی اموات ہوئیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلرز ان نوجوانوں کو اپنی خواہشات کے مطابق یورپ کے مختلف ممالک میں پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن ان راستوں پر سفر کرنا ایک سنسان موت کے مترادف ثابت ہو رہا ہے۔
حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ نوجوانوں کی حفاظت کے لیے ان کے سفر پر سوالات کیے جائیں گے۔
دوسری جانب وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایئرپورٹس پر اپنے گراؤنڈ افسران کو ایک ایڈوائزری جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان مخصوص ممالک کے لیے سفر کرنے والے مسافروں سے تفتیش کی جائے تاکہ انسانی اسمگلنگ کے ممکنہ شکار افراد کو بروقت بچایا جا سکے۔
یہ ایڈوائزری پاکستان کے لیے ایک سنگین الرٹ ہے ان ممالک میں آذربائیجان، ایتھوپیا، کینیا، مصر، سینیگال، سعودی عرب، ایران، روس، لیبیا، موریطانیہ، عراق، ترکی اور کرغزستان شامل ہیں۔
ان راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد لاکھوں میں ہو سکتی ہے حالانکہ اس بارے میں کوئی درست تخمینہ نہیں ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اےکے مطابق ان مخصوص ممالک کے لیے سفر کرنے والے پاکستانی نوجوانوں سے سخت تفتیش کی جائے گی تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ آیا کہ وہ کسی اسمگلر کے ہاتھوں میں کھیلنے تو نہیں جا رہے ہیں۔
اس اقدام کا مقصد انسانی اسمگلنگ کی لعنت کو روکنا اور ان نوجوانوں کی زندگیوں کو بچانا ہے جو اپنے بہتر مستقبل کی امید میں خطرناک سفر کا آغاز کرتے ہیں۔
پاکستانی نوجوانوں کی طرف سے یورپ جانے کی خواہش کا محرک زیادہ تر بہتر روزگار، زندگی کے بہتر مواقع اور بہتر مستقبل کے خواب ہیں۔
تاہم ان کی یہ خواہش انسانی اسمگلرز کے لیے ایک سنہری موقع بن جاتی ہے جو انہیں دھوکہ دے کر انتہائی خطرناک راستوں پر روانہ کرتے ہیں جبکہ ان نوجوانوں کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ سفر نہ صرف ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ ان کے خاندانوں کے لیے بھی ایک المیہ بن سکتا ہے۔
حکام کی یہ کوشش ہے کہ وہ ان نوجوانوں کو آگاہ کریں کہ یورپ پہنچنے کے لیے انسانی اسمگلنگ ایک خطرناک اور مضر راستہ ہے اور اس کے نتیجے میں بے شمار نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔