پاکستان تحریکِ انصاف نے ایک مرتبہ حکومت سےجاری مذاکرات میں نیا پیغام جاری کیا ہے۔ جس کے مطابق پی ٹی آئی پہلے منع کرنے کے بعد دوبارہ سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کر سکتی ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں۔
جمعے کے روز سابق حکومتی پارٹی نے یہ پیغام جاری کیا کہ وہ پہلے سے جاری مذاکرات صرف اسی صورت شامل ہوں گے اگر حکومت ان کی شرائط پوری کرے گی۔ ان کی شرائط میں جوڈیشل کمیشن بنانا اور عمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔
مشروط پیشکش 23 جنوری کو پی ٹی آئی کے پہلے کے موقف کے بعد سامنے آئی، جب اس نے عدالتی کمیشنوں کی تشکیل کے لیے ایک سخت ڈیڈ لائن دی تھی، مگر حکومت اس ڈیڈ لائن تک کمیشن نہیں بنا سکی۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے پہلے کہا تھا کہ پارٹی کے سپریمو نے پارٹی کے مطالبات پورے کرنے میں حکومت کی ناکامی کی وجہ سے مذاکرات کو روک دیا۔
تنازعہ کا شکار پارٹی کا متزلزل مؤقف کھل کر سامنے آ گیا کیونکہ اس نے نہ صرف 28 جنوری کو ہونے والے مذاکرات کے آئندہ چوتھے دور میں شرکت سے انکار کر دیا بلکہ اس بات پر بھی اصرار کیا کہ بات چیت صرف اسی صورت میں دوبارہ شروع ہو سکتی ہے جب حکومت اس کے مطالبات تسلیم کر لے۔
پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے گوہر نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا کہ حکومت کی جانب سے سات دن کی مدت میں عدالتی کمیشن بنانے کے پی ٹی آئی کے مطالبے کو پورا کرنے سے انکار کے بعد مذاکرات منسوخ کر دیے گئے۔
تاہم، حکومت نے پی ٹی آئی کی ڈیڈ لائن کو غلط قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ ابتدائی معاہدے میں سات کام کے دنوں کا حوالہ دیا گیا تھا ۔ یعنی جواب کی آخری تاریخ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔
اپنے پہلے بیان کے جواب میں، گوہر نے واضح کیا کہ عمران خان نے مذاکرات کو روکاہے، انہیں مکمل طور پر ختم نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر نظر ثانی کر سکتی ہے اگر ان کی شرائط پوری کی جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے حکومت کی مذاکرات میں دلچسبی کا پتا چلے گا ۔
گوہر نے مزید نشاندہی کی کہ پیش رفت نہ ہونے نے حکوت کے اصل ارادے سامنےآئے ہیں۔ انہوں کے ساتھ یہ سوال بھی کیا کہ کمیشن بنانے کا اعلان کرنے میں کون انہیں روک رہا ہے۔

مسلم لیگ ن اور اپوزیشن پی ٹی آئی کے درمیان ضرورت کے حامل مذاکرات 23 جنوری کو اس وقت رک گئے تھے جب عمران خان نے بیرسٹرگوہر کو حکومتی اتحاد کے ساتھ طے شدہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن نہ بنانے پر مذاکرات ختم کرنے کی ہدایت کی۔
پی ٹی آئی کے فیصلے کے بعد، حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ” ڈیڈ لائن ابھی ختم نہیں ہوئی ہے کیونکہ پچھلی میٹنگ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ حکومتی کمیٹی پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کا جواب سیون ورکنگ ڈیز میں ” دے گا نہ کہ صرف سات دن میں”۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان نے کہا تھا کہ “دونوں فریقین کے درمیان بات چیت کے تیسرے دور میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ حکومتی کمیٹی سیون ورکنگ ڈیز میں اپنا جواب جمع کرائے گی، جو ان کے بقول 28 جنوری کو ختم ہو جائے گا یعنی اس دن جب اسپیکر اسمبلی نے کمیٹیوں کا اجلاس 11 بجکر 45 منٹ پر طلب کیا ہے”۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پی ٹی آئی کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے، صدیقی نے کہا کہ” پی ٹی آئی نے اپنے چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کرنے کے لیے 42 دن کا وقت لیا تھا لیکن وہ ایک ہفتے کے اندر حکومتی کمیٹی کے جواب کا مطالبہ کر رہی ہے، حیرت ہے کہ وہ صرف پانچ دن مزید انتظار کیوں نہیں کر سکتی”۔
انہوں نے کہا کہ “حکومتی کمیٹی اپنا ردعمل تیار کرنے کے لیے محنت سے کام کر رہی تھی لیکن پی ٹی آئی اسی لا پرواہی کے ساتھ واپس چلی گئی جس کے ساتھ وہ حکمران اتحاد کے ساتھ مذاکرات کے لیے آئی تھی”، ان کا مزید کہنا تھا کہ “ہم انہیں کچھ دیر انتظار کرنے اور فیصلے پر نظرثانی کرنے کا کہتے ہیں”۔
فی الحال، مذاکرات کی تقدیر نا ہموار دکھائی دیتی ہے، کیونکہ پی ٹی آئی نے واضح کر دیا ہے کہ مذاکرات کے رکنے کو ختم کرنے کا واحد راستہ ان کی خواہش کے مطابق کمیشن بنانا ہے۔ تاہم، حکومتی کمیٹی کہتی ہے کہ “اپوزیشن جماعت کو جلد بازی میں مذاکرات ختم کرنے سے پہلے حکومت کے جواب کا انتظار کرنا چاہیے تھا”۔
ان افواہوں پر بات کرتے ہوئے کہ حکومت کمیشن بنانے پر آمادہ نہیں، صدیقی نے کہا کہ “پی ٹی آئی کمیٹی کو کم از کم اگلے اجلاس میں حکومت کا تحریری جواب سننا چاہیے تھا کیونکہ حکومتی کمیٹی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ جوڈیشل کمیشن نہیں بنائے گی”۔

مزید برآں، انہوں نے کہا” بہتر ہوتا کہ پی ٹی آئی میڈیا کے ذریعے حکومت تک پہنچانے کی بجائے مذاکرات ختم کرنے کا تحریری بیان دیتی”۔
پی ٹی آئی کے انکار کے بعد صدیقی نے کہا تھا کہ “حکومتی کمیٹی 28 جنوری کو بیٹھ کر مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں فیصلہ کرے گی”۔
دونوں فریقین 23 دسمبر 2024 کو مذاکرات کے لیے بیٹھے تھے تاکہ لمبے عرصے سے رکے ہوئے مسائل پر بات چیت کی جا سکے اور آگے کی راہ تلاش کی جا سکے۔ تب سے اب تک ان کے درمیان تین بار اجلاس ہو چکے ہیں۔ حکومت کے مطالبے کے مطابق پی ٹی آئی نے 16 جنوری کو تیسرے اجلاس میں اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ جمع کرایا تھا اور اس کے جواب کا انتظار کر رہی تھی۔
مذاکرات کا مقصد فریقین کے درمیان چلتے ہوئے مسائل کو حل کرکے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لانا تھا۔ تاہم، دونوں فریقین نے اب ڈیڈ لائن پر اختلاف کیا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ عمل اچانک ختم ہو گیا ہے۔