Follw Us on:

بلاسفیمی کیس میں این جی اوز مافیا کی اچھل کود اور پس پردہ حقائق

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

پاکستان کا معاشرہ اسلام کے بنیادی عقائد اور ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ پر گہرا ایمان رکھتا ہے۔ قیام پاکستان کا بنیادی مقصد ہی ایک ایسے معاشرے کا قیام تھا جہاں مسلمان آزادانہ طور پر اپنے دین کے مطابق زندگی گزار سکیں اور اسلامی شعائر و مقدسات کو محفوظ رکھا جائے۔ اسی عقیدے کی بنیاد پر پاکستان کے آئین میں دفعہ 295 تا 298 شامل کی گئیں، جن میں توہین رسالت، قرآن مجید، صحابہ کرام اور ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔ یہ قوانین کوئی نفرت انگیز یا انتقامی قانون نہیں بلکہ اہل ایمان کے جذبات، دین کی حرمت اور اسلامی معاشرت کے تحفظ کا آئینی و قانونی حصار ہیں۔

مگر بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں سے مغربی این جی اوز، سیکولر گروہ، نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار اور بعض غیر ملکی سفارت خانے ایک مشترکہ بیانیہ تیار کر کے پاکستان کے ان اسلامی قوانین کو متنازعہ بنانے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان گروہوں کا ہدف خاص طور پر قانون توہین رسالت (295-C) ہے، جسے وہ آزادی اظہار رائے کے خلاف قرار دے کر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس مہم کو مزید تیز کیا گیا ہے اور اس میں بعض قومی میڈیا ہاوسز، غیر ملکی فنڈڈ صحافی اور دانشوروں کو بطور آلہ کار استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ عناصر نہ صرف توہین رسالت کے قانون کو ختم کرانے کے درپے ہیں بلکہ ایسے افراد کے خلاف بھی منظم مہم چلا رہے ہیں جو عدالتی اور قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے گستاخوں کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان میں راو عبد الرحیم ایڈووکیٹ، حسن معاویہ اور دیگر ایسے جری افراد شامل ہیں جنہوں  نے کسی لالچ،  خوف یا دباو کی پرواہ کیے بغیر عدالتی نظام میں رہتے ہوئے مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ مقدمات دائر کیے اور سماج کے حساس طبقے کو قانون کا راستہ دکھایا۔ راو عبد الرحیم ایڈووکیٹ وہ شخصیت ہیں جنہوں  نے بلاسفیمی کے کئی کیسز اور دیگر مقدمات میں مدعی یا قانونی معاونت فراہم کی۔ ان پر”نفرت انگیزی“،  ”انتہاپسندی“،  ”شدت پسندی“ کے لیبل چسپاں کیے گئے تاکہ معاشرے میں ان کی شبیہ خراب کی جا سکے۔ نوجوان حسن معاویہ، جن کا تعلق ایک معزز دینی خانوادے سے ہے،  نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد پھیلانے والے کئی افراد کے خلاف ایف آئی آرز درج کروائیں اور انہیں عدالت کے روبرو پیش کیا۔

 ان کی اس کوشش کے خلاف این جی اوز کی پوری مہم نظر آتی ہے، جو نہ صرف قانونی اقدامات کو بدنام کرتی ہیں بلکہ ان پر جھوٹے الزامات لگا کر ان کی کردار کشی بھی کرتی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان مذہبی افراد کے خلاف نفرت کی یہ لہر کیوں چلائی جا رہی ہے؟اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یہ افراد ان عالمی ایجنڈوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جن کا مقصد پاکستان کو ایک لبرل، سیکولر اور دین سے بے زار ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ یہ بین الاقوامی لابیز اسلام کے خلاف اپنی دیرینہ عداوت کو ”حقوق انسانی“ اور ”آزادی اظہار“ جیسے دلفریب نعروں میں لپیٹ کر پیش کرتی ہیں۔ ان کی تمام تر کوشش اس بات پر مرکوز ہے کہ اسلامی معاشروں سے ”حدود“،  ”توہین رسالت“،  ”قانون ناموس صحابہ“ جیسے تمام قوانین کو ختم کیا جائے تاکہ مغربی طرز کی مادر پدر آزاد معاشرت کی راہ ہموار کی جا سکے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ جب بھی پاکستان میں کسی گستاخ رسول کے خلاف عوامی ردعمل پیدا ہوتا ہے یا کوئی عدالت فیصلہ دیتی ہے، تب ہی انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخنا شروع کر دیتی ہیں۔ مگر جب انہی تنظیموں کے زیر اثر ممالک جیسے فرانس، ڈنمارک یا ہالینڈ میں قرآن جلایا جاتا ہے یا پیغمبر اسلام ﷺ کے خاکے بنائے جاتے ہیں تو یہی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔ یہ دہرا معیار بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مقصد انسانی ہمدردی نہیں بلکہ اسلامی قوانین اور شعائر کے خلاف ایک منظم مہم ہے۔ راو عبد الرحیم اور حسن معاویہ جیسے افراد پر حالیہ مہینوں میں سنگین الزامات اور سوشل میڈیا پر گھناونی مہمات اس ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ ان افراد کو نہ صرف ہراساں کیا جاتا ہے بلکہ ان کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ ان کے اہلخانہ کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور عدالتوں میں ان کے خلاف بلاجواز اعتراضات کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں عدالتی کاروائی سے دور رکھا جا سکے۔

 اس سب کے باوجود یہ لوگ دلیرانہ انداز میں دین کا دفاع کر رہے ہیں اور امت کو بتا رہے ہیں کہ قانون اور عدلیہ کے دائرے میں رہتے ہوئے ناموس رسالت ﷺکا تحفظ ممکن ہے، بشرطیکہ ہم بیدار ہوں اور غیر ملکی ایجنڈوں کو پہچان سکیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب کوئی مجرم عدالتی کارروائی سے بچ نکلتا ہے تو عوام کا اعتماد قانون سے اٹھنے لگتا ہے اور تب ردعمل شدت اختیار کر لیتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے دشمن قوتیں استعمال کرتی ہیں تاکہ پاکستان کو ”انتہا پسند ریاست“ قرار دے کر عالمی سطح پر بدنام کیا جائے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاست، عدلیہ اور سول سوسائٹی مل کر توہین رسالت جیسے حساس مسئلے پر سنجیدہ اقدامات کریں اور جو لوگ پرامن اور قانونی انداز میں گستاخوں کے خلاف کام کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، نہ کہ ان پر الزامات لگا کر انہیں دیوار سے لگایا جائے۔

 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں توہین رسالت کے خلاف قانون شریعت اور عوامی جذبات کا آئینہ دار ہے۔  اس قانون کو کمزور کرنے کی ہر کوشش صرف دین اسلام ہی نہیں بلکہ پاکستان کے آئینی تشخص کے بھی خلاف ہے۔ گستاخوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے والوں کو مجرم بنا کر پیش کرنا دراصل اُس دشمنی کا تسلسل ہے جو عالم اسلام کے خلاف جاری ہے۔ مغرب کو تو خیر اسلام سے دشمنی ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے اندر سے ہی کچھ عناصر ان کا آلہ کار بن کر اسلام دشمنی کے اس ایجنڈے کو تقویت دے رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ اگر آج ہم نے راو عبد الرحیم، حسن معاویہ جیسے لوگوں کی آواز کو دبنے دیا تو کل کوئی اور کھڑا نہ ہو سکے گا۔ ہمیں ان کی پشت پر کھڑا ہونا ہے، ان کے کردار کی سچائی کو سمجھنا ہے اور ان پر لگنے والے الزامات کے پس پردہ مقاصد کو بے نقاب کرنا ہے۔

 اس وقت پورا عالم اسلام نظریاتی یلغار کا شکار ہے اور دشمن طاقتیں داخلی تقسیم، مذہبی منافرت اور ثقافتی انتشار پیدا کر کے ہمیں اندر سے توڑنے پر تلی ہوئی ہیں۔  ایسے میں جو افراد دین کے قلعے کی حفاظت کر رہے ہیں،  وہ ہمارے اصل ہیرو ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم قرآن و سنت کے تحفظ،  شریعت محمدیﷺ کے نفاذ اور ناموس رسالت ﷺ کے دفاع کے لیے ہر محاذ پر کھڑے ہوں۔  ہم خاموش رہے تو نہ صرف ہمارے دین کا مذاق اڑایا جائے گا بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بے دین،  بے حمیت اور بے غیرت ہو جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق پر قائم رکھے،  راو عبد الرحیم اور حسن معاویہ جیسے سرفروشوں کی حفاظت فرمائے اور دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دے۔آمین

نوٹ : بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس