پاکستان اور اسرائیل دونوں ایک دوسرے کے کٹر مخالف ہیں اور تمام عالمی سطح پر ایک دوسرے کی مخالفت کرتے نظر آئے ہیں، مگر دونوں ممالک کا امریکی صدر کو یک زبان ہوکر نوبل امن انعام دلوانے کی سفارش نے ہر ایک کو حیران کر کے رکھ دیا ہے۔
اگرچہ دونوں ممالک نے الگ الگ مواقع پر نوبل پیس پرائز کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نامزد کیا مگر ان کے اس فیصلے نے عوامی حلقوں میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے، جیساکہ کیا سچ میں اسرائیل اور پاکستان ایک دوسرے کے مخالف ہیں؟ کیا امریکا دونوں ممالک پر اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے ہے؟ اور کیا پاکستان کی امریکی صدر کو پیس پرائز کی سفارش کوئی سفارتی چال ہے یا پھر مجبوری؟
’پاکستان میٹرز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ محسن رضا قریشی نے کہا ہے کہ اس بات میں پاکستان اور اسرائیل نہ صرف سفارتی بلکہ نظریاتی طور پر بھی ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہیں، مگر دونوں ممالک کی اولین ترجیح امریکا سے اچھے تعلقات ہونا ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایسے بےتکے فیصلے کررہے ہیں۔
جون 2025 کے اختتام پر حکومتِ پاکستان کی جانب سے ایک غیر متوقع اعلان کیا جاتا ہے کہ وہ امریکی صدر کو نوبل امن انعام کے لیے باضابطہ طور پر نامزد کرے گی۔ حکومت پاکستان کے اس فیصلےنے سیاسی و عوامی سطح پر ہر ایک کو حیران کردیا۔
ترجمان حکومتِ پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ یہ نامزدگی اُس “امن پسندی” کا اعتراف تھی، جس کا مظاہرہ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدہ حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے کیا۔

اپریل میں پہلگام میں ہونے والے دہشتگرد حملے نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو ہوا دی اور یوں مئی کے اوائل میں دونوں ممالک کے درمیان فضائی جھڑپ دیکھنے کو ملی جوکہ ممکنہ طور پر کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ تھی۔
اس شدید کشیدگی کے دوران ٹرمپ نے پس پردہ کردار ادا کرتے ہوئے جنگ بندی کے لیے ثالثی کی اور پاکستان کے مطابق یہ ایک ممکنہ ایٹمی تصادم کو روکنے میں مددگار ثابت ہوا۔ اسی بنیاد پر پاکستان نے انہیں ’اصل امن ساز‘ قرار دے کر نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے کا اعلان کیا۔
عالمی سطح پر اس اعلان کو ایک جرات مندانہ سفارتی چال کے طور پر دیکھا گیا، مگر پاکستان اور انڈیا میں اس پر شدید تنقید ہوئی۔ ‘ڈیلی بیسٹ’ کے مطابق ناقدین نے اس اقدام کو “بے مقصد چاپلوسی” اور “قومی شرمندگی” سے تعبیر کیا، خاص طور پر اس لیے کہ پاکستان اسی دوران ایران پر امریکی حملوں کی مذمت کر رہا تھا۔
پارلیمنٹ میں بھی اپوزیشن جماعتوں نے اس فیصلے پر اعتراض کیا، جب کہ سوشل میڈیا پر شہریوں نے سوال اٹھایا کہ جس رہنما نے ماضی میں پاکستان کو “جھوٹا اور دھوکہ باز” کہا، اسے نوبل کے لیے نامزد کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ اور اس شخص کو نامزد کرنے کا کیا مطلب جوکہ محض شک کی بنیاد پر ایک ملک کے ساتھ مل کر ایک چھوٹے ملک کی جوہری تنصیبات پر حملے کردیتا ہے؟
ایڈووکیٹ محسن رضا قریشی کا کہنا تھا کہ امریکا ہمیشہ سے ہی دوغلی پالیسی اپناتا آیا ہے۔ ایک طرف وہ امن اور بھائی چارے کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف وہ ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے۔ اس بار بھی وہی پالیسی اپنائی گئی، پہلے امریکی صدر کو مذاکرات کے حوالے سے دو ہفتوں کا وقت دیا گیا مگر پھر اس کے دوسرے روز اسرائیل کے ساتھ مل کر فضائی حملے کردیے۔ یہ امریکی صدر کے دوغلے پن کو واضح کرتا ہے۔
پاکستان کے اس اقدام کے کچھ ہفتے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی خاموشی سے مگر مؤثر انداز میں ٹرمپ کو نوبل پیس پرائز کے لیے نامزد کرنے کا اعلان کیا۔ اسرائیلی حکومت کا مؤقف تھا کہ ٹرمپ نے ’ابراہیم معاہدوں‘ کے ذریعے اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے درمیان تعلقات معمول پر لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

نیتن یاہو نے ایک ضیافت کے دوران ذاتی طور پر ٹرمپ کو نوبل انعام کی نامزدگی کا خط بھی پیش کیا اور انہیں “خطے میں امن کو جنم دینے والا لیڈر” قرار دیا۔ ‘الجزیرہ’ اور ‘اے پی’ نیوز کے مطابق اسرائیل اور امریکا نے مشترکہ طور پر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے، جس کے بعد 12 روزہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ اس کا کریڈٹ بھی ٹرمپ کو دیا گیا۔
پاکستان اور اسرائیل کے اس یکساں اقدام نے عالمی سطح پر اس سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا یہ واقعی امن کے قیام کی کوشش ہے یا پھر صرف ایک سیاسی حکمت عملی؟
محسن رضا قریشی کہتے ہیں کہ دراصل پاکستان اور اسرائیل دونوں ممالک نے یہاں سیاسی سیاسی حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ پاکستان ترقی پزیر ممالک ہونے کے ساتھ ساتھ قرضوں میں گھرا ہوا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات رکھے اور تجارت سے فائدہ اٹھائے۔
انہوں نے کہا ہے کہ اس کے برعکس اسرائیل نے غزہ میں ظلم برپا کررکھا ہے اور اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ امریکا کو راضی کرے تاکہ امریکا اس ساری صورتحال میں خاموش رہے اور اس کے لیے اسرائیل کا امریکی صدر کو عالمی امن انعام کے لیے نامزد کرنا لازمی تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں ممالک کی یہ چال دراصل ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے اور امریکی اثرورسوخ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔
ماہرِ عالمی امور غالب طلال چانڈیو نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ ٹرمپ ایک ایسا رہنما ہے جو خوشامد پسند ہے اور اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسے علامتی اقدامات کافی مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ دونوں ممالک گویا سرگوشی کر کے کہہ رہے ہوں کہ ٹرمپ، ہم آپ کے ساتھ ہیں، آپ بھی ہمارے ساتھ رہیں۔
‘ریڈٹ’ اور ‘ٹائمز’ کی رپورٹس کے مطابق ٹرمپ کی نوبل نامزدگی ایک ایسا علامتی قدم ہے جو عالمی میڈیا، امریکی پالیسی حلقوں اور خود ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ نوبل انعام نہ صرف ایک اعزاز ہے بلکہ عالمی سطح پر اثرورسوخ کا ذریعہ بھی بن چکا ہے۔

خیال رہے کہ ماضی میں انور سادات (مصر) اور یٹزاک رابن (اسرائیل) جیسے رہنماؤں نے امن کے لیے حقیقی خطرات مول لیے تھے۔ ٹرمپ کا ریکارڈ تاہم خاصا متنازع رہا ہے اور ان کی سفارتی پالیسیاں اکثر مخالف آراء کا شکار رہی ہیں۔
پاکستان اور اسرائیل کا بظاہر ایک دوسرے کے مخالف ہونے کے باوجود ایک ہی سمت میں چلنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عالمی سیاست میں صف بندیاں تیزی سے بدل رہی ہیں۔ پاکستان جو طویل عرصے سے چین، ایران اور ترکی جیسے ممالک کے قریب رہا، اب امریکی اثرورسوخ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسی طرح اسرائیل جو ہمیشہ سے امریکا کا قریبی اتحادی رہا ہے، ٹرمپ کی واپسی کی امید میں اپنی پوزیشن مستحکم کر رہا ہے۔
پاکستان اور اسرائیل دونوں ممالک کو اس فیصلے پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے نوبل نامزدگی کو غزہ میں شہری ہلاکتوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کہا گیا ہے، جب کہ پاکستان پر دوغلی پالیسی کا الزام لگایا گیا کہ ایک طرف وہ ایران پر امریکی حملوں کی مذمت کرتا ہے اور دوسری طرف ٹرمپ کو امن کا سفیر قرار دیتا ہے۔
ماہرین کے مطابق نوبل انعام کا ملنا اگرچہ مشکل دکھائی دیتا ہے، مگر اس پوری کارروائی کا اصل مقصد ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنا اور امریکی پالیسی حلقوں میں رسائی حاصل کرنا ہے۔
نجی خبررساں ادارے ‘ایکسپریس ٹریبیون’ کے مطابق امریکی پریس آفس نے پاکستان کی نامزدگی کا باضابطہ ذکر کیا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان نے کامیابی سے واشنگٹن میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔

پاکستان اور اسرائیل کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت اور نوبل انعام کے لیے نامزدگی بظاہر ایک علامتی قدم ہے، لیکن اس کے پیچھے کئی سفارتی اور سیاسی مقاصد چھپے ہیں۔ یہ صرف ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکی طاقت تک رسائی کی ایک حکمتِ عملی بھی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ واقعی امن کے سفیر ہیں؟ اور کیا دنیا اس سفارتی شطرنج کے ان چالوں کو قبول کرے گی یا پھر یہ سب کچھ وقتی سرخیاں بن کر رہ جائے گا؟ خیر ان سوالات کے جوابات تو اب آنے والا وقت ہی بتائے گا۔