تل ابیب میں ہفتے کے روز ہزاروں اسرائیلی شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ فوری طور پر مکمل کرے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ جب تک تمام یرغمالیوں کو بازیاب نہیں کرایا جاتا، کسی بھی سیاسی یا عسکری کامیابی کا کوئی مطلب نہیں۔
اسرائیلی نشریاتی ادارے چینل 13 کے مطابق احتجاجی مظاہرے دوپہر سے شام تک جاری رہے، جن میں مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر درج تھا: ’’قیدیوں کی واپسی کے بغیر کوئی کامیابی ممکن نہیں۔‘‘
مظاہرین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ دوحہ میں جاری مذاکرات کو نتیجہ خیز بنائے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اس وقت تقریباً 50 اسرائیلی شہری غزہ میں یرغمال ہیں جن میں سے 20 کے زندہ ہونے کا یقین ہے۔
دوسری جانب، قطری دارالحکومت دوحہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور جاری ہے۔ العربیہ اور دیگر خبر رساں اداروں کے مطابق، قطر، مصر اور امریکہ ان مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں، جن کا مقصد جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر جامع معاہدے تک پہنچنا ہے۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق، اگرچہ بات چیت میں کچھ رکاوٹیں موجود ہیں، تاہم مذاکرات تعطل کا شکار نہیں ہوئے۔ چینل 12 نے ایک اعلیٰ سیاسی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ “مذاکرات جاری ہیں، اور اسرائیلی وفد اب بھی دوحہ میں موجود ہے”۔ اسی طرح چینل 13 نے بھی اطلاع دی کہ ہفتے کے روز اسرائیلی وفد نے مصری اور قطری ثالثوں کے ساتھ اہم ملاقاتیں کیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی وفد وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اسٹریٹجک امور کے وزیر رون دیرمر سے براہ راست رابطے میں ہے۔ وفد کو قطری تجاویز کی بنیاد پر دوحہ بھیجا گیا تھا۔

دریں اثناء اسرائیلی اپوزیشن نے وزیراعظم نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ جزوی معاہدوں کے ذریعے جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں تاکہ دائیں بازو کی جماعتوں کو مطمئن رکھ کر اپنی حکومت بچا سکیں۔
ایک اسرائیلی سیاسی عہدیدار نے حماس پر الزام لگایا کہ وہ مذاکرات میں دانستہ طور پر سخت رویہ اپنائے ہوئے ہے اور نفسیاتی دباؤ ڈال کر بات چیت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان گذشتہ 20 ماہ کے دوران کئی مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں، جن کے نتیجے میں نومبر 2023ء اور جنوری 2025ء میں دو بار محدود جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا تاہم کوئی دیرپا حل سامنے نہیں آ سکا۔