تحریر: نعمان احمد
پاکستان کا معاشی مرکز، ایک وقت میں روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔ اس کی سڑکیں زندگی سے بھری ہوتی تھیں، راتوں کو رنگین روشنیاں شہر کو جگمگاتی تھیں، اور لوگ بے فکری سے گھوما پھرا کرتے تھے۔ مگر آج کل یہ شہر اسٹریٹ کرائم اور ڈکیتوں کے ہاتھوں یرغمال بنتا جا رہا ہے۔ کیا وجوہات ہیں کہ یہ شہر اپنی چمک کھو رہا ہے؟
کچھ دہائیاں قبل کراچی نہ صرف پاکستان کا معاشی دارالحکومت تھا بلکہ ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں کا مرکز بھی تھا۔ اس کے ساحل، پارکس، اور بازار لوگوں سے بھرے رہتے تھے۔ رات کو بھی لوگ بغیر کسی خوف کے سڑکوں پر نکلتے تھے۔ شہر کی بندرگاہ، صنعتی زونز، اور کاروباری مراکز نے اسے عالمی سطح پر شناخت دی۔
بالی ووڈ سے متاثر فلم انڈسٹری، تھیٹر، اور موسیقی کے پروگرامات کراچی کی شناخت کا حصہ تھے۔ لوگ اسے “پاکستان کا دل” کہتے تھے، جہاں مختلف ثقافتوں اور زبانوں کے لوگ مل جل کر رہتے تھے۔
بدقسمتی سے، آج کراچی کی تصویر کافی حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ اسٹریٹ کرائم، چھینا جھپٹی، اور ڈکیتی کے واقعات روزمرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ شہریوں کو اپنی جان و مال کی فکر لاحق رہتی ہے۔ مصروف سڑکوں، بازاروں، اور حتیٰ کہ رہائشی علاقوں میں بھی لوٹ مار کے واقعات عام ہیں۔
موبائل فون چھیننا، گاڑیوں سے لوٹنا، اور گھروں میں گھس کر ڈکیتی جیسے جرائم نے شہریوں کے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، کراچی میں گزشتہ چند سالوں میں اسٹریٹ کرائم کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس نے شہر کی امن و امان کی صورتحال کو خراب کیا ہے۔
کراچی میں جرائم کی شرح میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے، شہر کی آبادی بے تحاشہ بڑھ چکی ہے۔ نقل مکانی کے باعث شہر پر دباؤ بڑھا، جس سے غربت، بے روزگاری، اور سماجی عدم مساوات میں اضافہ ہوا۔ یہ عوامل جرائم کی شرح کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
دوسری وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری ہے۔ پولیس فورس کی تعداد شہر کی آبادی کے تناسب سے ناکافی ہے، اور بدعنوانی کے الزامات نے ان کے کردار کو مزید کمزور کیا۔ اس کے علاوہ، معاشی عدم استحکام اور مہنگائی نے بھی لوگوں کو جرائم کی طرف راغب کیا ہے۔
اسٹریٹ کرائم کے بڑھتے واقعات نے کراچی کے شہریوں کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ لوگ رات کے وقت غیر ضروری طور پر گھر سے نکلنے سے گریز کرتے ہیں۔ خواتین اور بچوں کے لیے سڑکوں پر چلنا مشکل ہو گیا ہے۔ کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں، کیونکہ دکانداروں کو ڈکیتی اور لوٹ مار کا خطرہ رہتا ہے۔ اس صورتحال نے شہریوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے، جو ان کی نفسیاتی صحت پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔
کراچی کو دوبارہ روشنیوں اور امن کا شہر بنانے کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، پولیس فورس کو مضبوط اور فعال بنانا ہوگا۔ جدید ٹیکنالوجی، جیسے کہ سی سی ٹی وی کیمرے اور ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم، کو شہر بھر میں نصب کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ، معاشی مواقع پیدا کر کے غربت اور بے روزگاری کو کم کیا جا سکتا ہے۔
تعلیمی اداروں اور کمیونٹی پروگراموں کے ذریعے نوجوانوں کو جرائم سے دور رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ آخر میں، شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ اعتماد بحال ہو۔
کراچی، جو کبھی روشنیوں اور زندگی کا شہر تھا، آج جرائم کی تاریکی میں گھرا ہوا ہے۔ مگر یہ صورتحال ناقابل تبدیل نہیں ہے۔ مناسب منصوبہ بندی، مضبوط سیاسی عزم، اور شہریوں کے تعاون سے کراچی ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی شان حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ہر سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ یہ شہر دوبارہ امن، خوشحالی، اور روشنیوں کا گہوارہ بن سکے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ملک پاکستان اور خاص طور پر کراچی کی حفاظت فرما، آمین
نوٹ: بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر