Follw Us on:

عمران خان کی رہائی: ’شادی سے پہلے طلاق ہوگئی‘

اظہر تھراج
اظہر تھراج
Whatsapp image 2025 07 15 at 9.01.35 pm
باتیں کرنے والے باتوں سے نہ رکے تو ان کے خلاف پارٹی ضابطہ کے تحت کارروائی بھی کی جائے گی۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کی شادیوں میں سب سے بڑا مسئلہ روٹھوں کو منانا ہے، چاچا، تایا، پھوپھا، پھوپھی سبھی دولہا کے لیے ’مسئلہ کشمیر‘ بن جاتے ہیں، شادی اگر’ارینج‘ ہو تو پھر اور بھی بڑا مسئلہ۔

اس میں رشتہ والدین تلاش اور فائنل کرتے ہیں۔ جہیز میں کیا دینا کیا لینا ہے، کھانا کیا پکے گا، قاضی کون ہوگا، بارات کیسے اور کتنے بجے آئے گی، نکاح کب ہو گا؟

 مہر کتنا طے ہو گا، لڑکی کا سر پکڑ کر تین بار کون ہلائے گا اور ’قبول ہے، قبول ہے‘ کہتے ہوئے ہوا میں چھوارے کون اچھالے گا؟ یہ سب دلہن کے بڑے ہی طے کرتے ہیں۔

اب دیکھیں پی ٹی آئی کے کچھ ’بیچاروں‘ نے دو سال سے قید اپنے قائد کے لیے کچھ کرنے کی ٹھانی ہے تو کیڑے نکالنے والے اکٹھے ہوگئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے مجھے بلایا نہیں گیا تو کوئی کہتا ہے کہ ’جو شریک تھے وہ سب کسی اور کے ہیں‘۔ مطلب کہ رشتہ داری سے ہی انکار۔

اس صورتحال پر جنرل سیکرٹری سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ ’جس کسی کو علی امین صاحب کی پریس کانفرنس کا دعوت نامہ وصول نہ ہونے کا ملال ہے وہ جان لے کہ دعوت نامہ تو کسی کو نہیں بھیجا گیا تھا۔ کچھ خود عمران خان صاحب کے وزیر اعلیٰ اور پارٹی کے وقار کی خاطر موجود تھے۔ جنہیں ملال ہے وہ اپنی مصروفیات سے آگاہ فرمائیں جو پارٹی وقار پر حاوی ہوئیں‘۔

بات یہیں نہیں رکی پارٹی کے جنرل سیکرٹری نے دھمکی بھی دی ہے کہ باتیں کرنے والے باتوں سے نہ رکے تو ان کے خلاف پارٹی ضابطہ کے تحت کارروائی بھی کی جائے گی۔ ایسی صورتحال میں تحریک کی یہ بیل منڈھے چڑھے گی؟

ماہرین کہتے ہیں کہ پنجاب کے بغیر خیبر پختونخوا کچھ نہیں۔ علی امین گنڈا پور بھی اسی لیے ’بارات‘ لے کر پنجاب آئے کہ شاید کچھ مل جائے۔ کچھ ملنا تو دور کی بات میزبان اورمہمان دونوں پورے نہیں ہوئے۔

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی پر ’کیفیت‘ طاری نہیں ہوئی، احتجاج کے لیے احتجاجی کیفیت طاری کرنا ضروری ہوتا ہے اور لوگوں کے اندر اس حوالے سے تحریک کا پیدا ہونا ضروری ہوتا ہے۔

 وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی اس وقت سب سے بڑی کمزوری پنجاب ہے اور اب پنجاب کو متحرک کرنے کے لیے انہیں خیبر پختونخوا کی ضرورت پڑی ہے اور وہاں کے وزیر اعلیٰ کو انہوں نے یہاں بلایا ہے۔

ابھی تک تو یہ طے نہیں ہوسکا کہ تحریک نوے دن تک لے جانی ہے یا صرف پانچ اگست تک۔ 

اس تحریک کے کامیاب ہونے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی اسیری کو دو سال ہو گئے ہیں۔ اور پی ٹی آئی کچھ نہیں کرسکی۔

نوٹ : بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر

اظہر تھراج

اظہر تھراج

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس