ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کے موبائل فون رکھنے کے امکانات مردوں کے مقابلے میں 35 فیصد کم ہیں۔ رپورٹ “پاکستان کا ڈیجیٹل ایکو سسٹم” کے عنوان سے جاری کی گئی ہے، جو 2023 کی جی ایس ایم اے موبائل جینڈر گیپ رپورٹ کے نتائج پر روشنی ڈالتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں مردوں کی موبائل فون ملکیت کی شرح 81 فیصد ہے جبکہ خواتین میں یہ شرح صرف 52 فیصد ہے۔ اسی طرح، خواتین کے انٹرنیٹ استعمال کرنے کے امکانات بھی مردوں کے مقابلے میں 38 فیصد کم ہیں۔
رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان میں کئی خواتین اپنے مرد رشتہ داروں کے نام پر رجسٹرڈ موبائل فون اور سروسز استعمال کرتی ہیں، جس کے باعث خواتین کی حقیقی ڈیجیٹل رسائی کا درست اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔
صنفی ڈیجیٹل تقسیم کے پیچھے متعدد رکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں خاندانی منظوری کا فقدان،آن لائن ہراسانی، جس سے خواتین غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں،شناخت یا نجی معلومات کے چوری ہونے کا خدشہ،ڈیجیٹل مہارتوں کی کمی، خاص طور پر ICT کے شعبے میں جہاں خواتین گریجویٹس کی شرح صرف 14 فیصد ہے،کمپیوٹر خواندگی میں 35 فیصد کا صنفی فرق اوردیہی خواتین کو درپیش اضافی سماجی، ثقافتی اور مالی رکاوٹیں شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان ڈیجیٹل سہولیات میں واضح فرق موجود ہے۔ دیہی علاقوں میں براڈ بینڈ تک رسائی محدود ہے، جبکہ شہری علاقوں میں بہتر نیٹ ورک دستیاب ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:تاجک نژاد سوشل میڈیا سٹار کو دبئی ائیر پورٹ پر کیوں گرفتار کیا گیا؟
انٹرنیٹ تک رسائی کے باوجودڈیجیٹل آلات کی قیمتیں اور محدود ڈیجیٹل تعلیم، خاص طور پر دیہی خواتین کے لیے، بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
مزید پڑھیں:اداکارہ حمیرا اصغر کی موت، آخری مرتبہ 75 نمبروں سے بار بار رابطہ، فون کرنے والے کون تھے؟
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ڈیجیٹل ترقی کو تیز کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی فراہمی، استطاعت، ڈیجیٹل خواندگی اور سماجی و ثقافتی رکاوٹوں پر قابو پانا ناگزیر ہے۔