Follw Us on:

کچرا جلانے سے منع کرنے پر ونگ کمانڈر کے گارڈ نے جامعہ کراچی کے پروفیسر کو زخمی کر دیا

ڈاکٹر اسامہ شفیق
ڈاکٹر اسامہ شفیق

گزشتہ روز 15 جولائی 2025 جامعہ کراچی کیمپس اسٹاف ٹاؤن میں مقیم جامعہ کراچی کے سینیئر پروفیسر، پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی جوکہ اسٹاف ٹاؤن کے مکان C89 میں مقیم ہیں، ان کے سامنے والے مکان میں ناجائز طور پر رینجرز نے قبضہ کیا ہوا ہے مکان نمبر C81 میں آج کل جامعہ کراچی میں تعینات ونگ کے ونگ کمانڈر مقیم ہیں۔

انہوں نے اپنے عملے کو ہدایت کی ہے کہ کیونکہ ان کی بکریوں کو مچھر کاٹتے ہیں لہذا اس سے بچاؤ کے لیے روانہ کچرا جلایا جائے تاکہ دھویں سے مچھر بھاگ جائیں۔

سامنے مکان میں مقیم پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی نماز مغرب کے بعد گھر آئے تو دیکھا کہ آج پھر کچرا جلایا جارہا ہے انہوں نے وہاں موجود گارڈ کو کہا کہ بھائی اس کو نہ جلاؤ میں کل بھی اس دھویں کی وجہ سے نہیں سو سکا کیونکہ دھواں کمرے میں بھر جاتا ہے اور سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔

گارڈ جوکہ رینجرز اہلکار ہے اس نے کہا کہ تم کون ہوتے ہو ان سے بد تمیزی کی اور منہ پر زور دار تھپڑ رسید کردیا جس سے پروفیسر آفاق صدیقی کا چشمہ ٹوٹ گیا ان کی آنکھ میں خون بھی جم گیا ان کو دیکھ کر اہل محلہ جمع ہوئے بات یونیورسٹی انتظامیہ تک گئی ونگ کمانڈر آئے اور انہوں نے پروفیسر آفاق پر رینجرز اہلکار کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا الزام عائد کردیا۔

جامعہ کراچی میں موجود ہر فرد یہ گواہی دے گا کہ پروفیسر آفاق صدیقی تو کبھی کسی سے اونچی آواز میں بھی بات نہیں کرتے کجا کہ کسی کے اور وہ بھی کسی مسلح اہلکار کے گریبان پر ہاتھ ڈالیں۔

مجھے افسوس ہے کہ اس جامعہ کراچی میں جس میں ایک پروفیسر اپنی پوری زندگی دیتا وہاں ایک عام مسلح اہلکار اس کو بے عزت کردے یہ دن یقیناً ایک پروفیسر کے لیے کرب ناک ہے ان کی روح پر جو زخم لگا ہے وہ شاید مندمل نہ ہوسکے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ تھپڑ صرف ایک پروفیسر کو نہیں بلکہ مجھ سمیت تمام اساتذہ کو مارا گیا ہے۔

اس وقت یہ صورت حال ملک کی سب سے بڑی جامعہ کے سب سے بڑے عہدے پروفیسر کی ہے جوکہ ایک مسلح اہلکار کے ہاتھوں ذلیل ہورہا اور اس کے پیچھے ونگ کمانڈر سمیت پورا ادارہ قوم کے مفاد میں کھڑا ہے۔

یاد رکھیں کہ جن معاشروں میں استاد کی عزت نہ ہو وہ معاشرے تباہی سے نہیں بچ سکتے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ استاد کو بے توقیر کرنے والے ادارے بھی تاریخ میں کبھی نہ بچ پائے ہیں۔

آج پورے ملک میں جہاں کہیں بھی افواج پر حملے ہوتے ہیں ہم کی مذمت تو کرتے ہیں لیکن وجوہات تلاش نہیں کرتے، عام آدمی کو تو چھوڑیں، جب استادوں اور پروفیسر تک کو بے توقیر کیا جائے تو پھر کیا ہوتا ہے تاریخ کا مطالعہ کرلیں۔

میں ڈی جی رینجرز سندھ، کور کمانڈر کراچی، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے گزارش کرتا ہوں کہ اس واقعے کا نوٹس لیں ونگ کمانڈر کو اس گارڈ سمیت برطرف کریں، استاد کو عزت دیں ان کے پاس جاکر ادارے کی جانب سے معزرت کریں۔ اگر آپ یہ نہیں کرتے تو پھر یہ آگ جو ملک کے طول وعرض میں لگی ہے اس کی وجوہات بھی ختم نہیں ہونگی۔


میرے پاس ہتھیار نہیں لیکن قلم ہے اور یہ بات ہر طاقت ور کو معلوم ہونی چاہیے کہ قلم کا مقابلہ کوئی نہ کرسکا ہے اور نہ کرسکے گا۔
کوشش کریں کہ اہل علم و اہل قلم آپ کے خلاف قلم نہ اٹھائیں ورنہ آپ کی طاقت کا سورج بہت جلد غروب ہو جائے گا۔

اسے ہے سطوتِ شمشیر پہ گھمنڈ بہت
اسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ
مِرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
مِرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
مِرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مِرا قلم نہیں اس دزدِنیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
مِرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
مِرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے
مِرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مِرا قلم تو عدالت مِرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مِرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

نوٹ : بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر

ڈاکٹر اسامہ شفیق ابلاغیات، عالمی امور کے ماہر اور استاد ہیں، جرنلزم میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں، یونیورسٹی آف کراچی میں پڑھاتے رہے ہیں آج کل مانچسٹر، انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ فیس بک اور ایکس پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر اسامہ شفیق

ڈاکٹر اسامہ شفیق

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس