Follw Us on:

‘ہم تو جیسے اس کی واپسی کے لیے مر رہے ہیں’ بابر اعظم کی ٹیم میں واپسی پر نئی بحث چھڑ گئی

افضل بلال
افضل بلال
Babar azam
Babar Azam (File Photo)

پاکستان میں سیاست اور کرکٹ دو ایسی چیزیں ہیں جن سے سب کو جنون کی حد تک لگاؤ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر روزانہ کرکٹرز کے مداحواں اور ناقدین کے مابین شدید بحث دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کبھی کسی کھلاڑی کی فٹنس پر سوال اٹھتا ہے تو کبھی کارکردگی کو نشانے پر رکھا جاتا ہے۔ یہ تجزیے صرف عام شائقین تک ہی محدود نہیں رہتے مشہور کرکٹ ایکسپرٹس اور تجزیہ کار بھی اس بحث کا حصہ بنتے ہیں۔

انہی ایکسپرٹس اور تجزیہ کاروں میں سے ایک معروف نام مظہر ارشد کا ہے۔ مظہر ارشد ایک کرکٹ اینالسٹ ہیں جن کے ایکس (ٹوئٹر) پر ساڑھے چار لاکھ سے زائد فالوورز ہیں۔ ارشد اکثر قومی کرکٹرز سے متعلق باقاعدگی سے تجزیے پیش کرتے رہتے ہیں۔

حال ہی میں مظہر ارشد نے بابر اعظم کی قومی ٹیم میں واپسی پر ایک نیا مؤقف پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق آنے والے دو اہم ایونٹس جن میں ٹی ٹوئنٹی ایشیا کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ (جن میں پاکستان انڈیا کے میچز ہائبرڈ ماڈل کے تحت سری لنکا اور متحدہ عرب امارات میں متوقع ہیں) کے تناظر میں قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان بابر اعظم کی واپسی ٹیم کے لیے ضروری ہو سکتی ہے۔

انہوں نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ “2024 کے آغاز سے ہی ٹی 20 فارمیٹ میں متحدہ عرب امارات میں 8.03 اور سری لنکا میں 7.87 اکانمی ریٹ رہا ہے جو کہ دیگر بڑی میزبان ممالک کے مقابلے بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ، بڑے ایونٹس بڑے مقابلوں میں کبھی کبھار کریز پر جم کر کھیلنے کی خاطر بیٹنگ اسٹائل کو تبدیل کرنے کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ بعض اوقات گیلی پچ اور اسکور بورڈ کا پریشر پاور ہٹنگ کو بے اثر کر دیتا ہے ایسی صورتحال میں ٹیم میں ایسے بلے باز کی ضرورت پڑتی ہے جو اننگز کو لمبا لے کر چلے۔”

انہوں نے مزید لکھا کہ “اگرچہ پاکستان کے پاس صائم ایوب، فخر زمان، صاحبزادہ فرحان اور سلمان علی آغا جیسے جارح مزاج بلے باز موجود ہیں۔ لیکن عالمی ایونٹس کے پریشر میں بیٹنگ کا توازن بنائے رکھنے کے لیے بابر جیسے کھلاڑی کی اہمیت نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔”

Whatsapp image 2025 07 16 at 9.31.29 pm

ان کے مطابق “اگرچہ یہ سچ ہے کہ  پاکستان کے پاس کافی اچھے بلے باز ہیں جو اچھے اسٹرائک ریٹ سے کھیل سکتے ہیں۔ جن کے فرسٹ کلاس ریکارڈز بھی اچھے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگرضرورت پڑی تو یہ کھلاڑی ڈٹ کر مقابلہ بھی کریں گے۔ یہاں تک کہ محمد حارث اور حسن نواز جیسے سب سے زیادہ ‘سلوگر’ قسم کے کھلاڑیوں کے پاس بھی چند اننگز موجود ہیں جہاں وہ کریز پر جم کر بنیادی کرکٹ کھیلتے رہے ہیں۔ ہمارے پاس پلیئنگ الیون میں فن ایلن، مچل اوون یا آصف علی جیسے کھلاڑی تو نہیں ہیں کہ جن کے پاس جتنی جلدی ممکن ہو سکور کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں ہے۔”

مظہر ارشد نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ہماری ممکنہ الیون میں 8 باصلاحیت بیٹرز ہوں گے جو انڈیا کے خلاف حالیہ اسکواڈ سے بہتر ہوں گے جن میں عثمان خان، افتخار احمد اور عماد وسیم شامل تھے۔ انہوں نے ان کھلاڑیوں کو نسبتاً کمزور یا سست بلے باز قرار دیا۔

آخر میں انہوں نے لکھا کہ “اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں بابر اور رضوان کے پیش کردہ اسکل سیٹ اپ کی ضرورت ہوگی۔ ہماری لائن اپ میں بطور ڈیڈیکیٹڈ کھلاڑی سلمان جبکہ صائم، فرحان نان سلوگرز، فہیم اور شاداب کی صورت میں نمبر سات اور اٹھ تک عمدہ بیٹنگ موجود ہے۔ حسن علی اور عباس آفریدی کی شمولیت سے یہ اور بھی مضبوط ہو جاتی ہے۔”

مگر جیسے ہی یہ تجزیہ ریڈیٹ پر ‘پاک کرکٹ’ اکاؤنٹ کے ذریعے شیئر ہوا تو ایک نیا محاذ کھل گیا۔ ایک صارف نے مظہر ارشد کے یوٹرن پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ “یار یہ مظہر ارشد بہت  ہی مزاحیہ آدمی ہے۔ جب بابر ٹیم میں تھا یہ ہر وقت اسٹرائیک ریٹ، ان کے خلاف اعدادوشمار، ٹی ٹوئنٹی میں فرسودہ ہو چکے ہیں جیسی باتیں کر کے ہر وقت ٹویٹ کیا کرتا تھا۔ اب یہ کہہ رہا ہے کہ ہمیں ٹیم میں اس کی ضرورت ہو سکتی ہے۔”

Whatsapp image 2025 07 16 at 9.31.26 pm

ایک اور صارف نے لکھا کہ “اگر بابر یا رضوان میں سے کسی کو بھی ورلڈ کپ اسکواڈ میں شامل کیا گیا تو یہ صائم، فرحان اور حارث جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔” اس کے جواب میں ایک اور صارف نے رائے دی کہ “اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں ٹی ٹوئنٹی میں بابر کو رضوان پر ترجیح دوں گا۔” لیکن ساتھ ہی دوسرے نے کہا کہ “میں ان دونوں میں سے کسی کو بھی ٹیم میں نہ رکھوں۔”

Whatsapp image 2025 07 16 at 9.31.27 pm

مزید مزاحیہ تبصرہ بھی نظر آیا کہ “ہاں، ہم تو جیسے بابر کو ٹیم میں واپس لانے کے لیے مر رہے ہیں۔” اختتام پر ایک صارف کا تبصرہ سب کچھ سمیٹ گیا کہ “کیا ہم اس کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے؟ بابر واضح طور پر ٹی ٹوئنٹی کا کھلاڑی نہیں ہے تو ہم اسے زبردستی کیوں شامل کرنا چاہتے ہیں؟”

Whatsapp image 2025 07 16 at 9.31.28 pm

یقینی طور پر بابراعظم نے حالیہ اننگز میں خود کو منوانے کی کوشش تو کی ہے مگر وہ متاثرکن کارکردگی پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہیں تینوں فارمیٹس میں کئی بار مواقع دیے گئے لیکن توقعات کے مطابق نتائج نہیں دے سکے۔ کچھ صارفین نے یہاں تک کہا کہ “یہ صرف بابر کی پی آر ٹیم کا کھیل ہے۔ اس کی ٹی ٹوئنٹی میں کوئی جگہ نہیں بنتی۔”

Whatsapp image 2025 07 16 at 9.31.28 pm (1)

بات صرف بابراعظم تک محدود نہیں۔ ایک بڑا حلقہ اس سسٹم پر تنقید کر رہا ہے جہاں تعلقات اور سفارش، محنت اور میرٹ پر حاوی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس کھلاڑی کی واپسی کی کوئی توقع نہیں ہوتی وہ کسی نہ کسی بڑے ایونٹ میں اچانک اسکواڈ کا حصہ بن جاتا ہے۔

پی سی بی کے اندرونی اختلافات، سیاسی اثر و رسوخ اور غیر پیشہ ورانہ فیصلے ہر بار ٹیم کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ لیکن شائقینِ کرکٹ صرف پاکستان کی جیت چاہتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کب تک ہم صرف امیدوں پر گزارا کرتے رہیں گے؟ کب تک ٹیم ہمارے جذبات سے کھیلتی رہے گی؟

دو بڑے ایونٹس سر پر کھڑے ہیں۔ اب فیصلہ وقت کرے گا کہ ہم ایک بار پھر مایوس ہوں گے یا کھلاڑی واقعی میدان میں اُتریں گے اور قوم کو جیت کا تحفہ دیں گے۔

Author

افضل بلال

افضل بلال

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس