اسرائیل اور فلسطین کے درمیان 15 ماہ کی جنگ بندی کے بعد دونوں ممالک کی طرف سے غزہ جنگ بندی معاہدے کے مطابق قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت حماس نے 4مغوی اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر دیا اور اسرائیل کی طرف سے 200 فلسطینیوں کو رہا کیا گیا۔
عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت 4 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا ۔ مغوی اسرائیلی فوجی خواتین کے نام لیری الباگ، کرینہ ایریف ، ڈینئیل گلبوا اور نما لیوی ہیں۔حماس ترجمان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں سے 200 فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کردیا گیا ہے۔
ہزاروں کے مجمع میں قابض 4 فوجی خواتین ریڈ کراس کے حوالے کر دی گئیں۔ جن کی بدن بولی، چہرے بشرے اور وضع قطع سے شادمانی ٹپک رہی تھی۔ کہیں سے نہیں لگ رہا کہ یہ کسی دشمن کی قید میں تھیں۔ اس حوالے سے غزہ کے میدان فلسطین میں ایک شاندار مختصر تقریب منعقد کی گئی۔ جسے نقاب پوش جانبازوں کے دستوں نے گھیر رکھا تھا۔ شہریوں کی بھی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ مغوی سپاہیوں کو نئی فوجی یونیفارم کے ساتھ فلسطینی پرچم سے مزین ڈوری والا کارڈ پہنایا گیا تھا اور اور ان قیدیوں کو تحائف سے بھرے پیکٹ بھی دیے گئے۔
عالمی خبر ارساں ادارہ بی بی سی کے مطابق حماس کی طرف سے اسرائیل کی قیدیوں کو رہا کرنے کے بعد اسرائیل نے الزام عائد کیا کہ حماس نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور اربیل یہود نامی سویلین خاتون کو رہا نہیں کیا، اس خاتون کو رہا نہ کرنے کے عوض میں اسرائیل نے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو شمالی غزہ طے شدہ واپسی کو بھی معطل کر دیا۔
حماس کا کہنا ہے کہ یرغمال بنائی گئی سویلین خاتون کو اگلے ہفتے رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو شمالی غزہ جانے سے روک دیا ہے جس کے بعد حماس نے اسرائیل پر معاہدے کی شرائط پر عمل کو معطل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
اس تنازع کے بعد اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے اور ان میں سے سنگین جرائم میں ملوث 70 قیدیوں کو فوری طور پر مصر کے راستے پڑوسی ممالک بھیجا گیا ہے۔اسرائیل کی جانب سے رہا کیے گئے کچھ قیدیوں کو غزہ منتقل کیا جائے گا، جبکہ کچھ قیدیوں کو مقبوضہ غربِ اردن اور مشرق یروشلم میں اپنے گھروں تک واپسی کی اجازت دی جائے گی۔
واضح رہے کہ 19 جنوری کو جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سنیچر کو قیدیوں کی رہائی کا یہ دوسرا مرحلہ تھا۔ اس سے قبل پچھلے ہفتے حماس نے تین قیدی اور اسرائیل نے 90 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا تھا۔
اسرائیل نے قیدیوں کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن اسرائیل ہر کوشش میں نکام رہا،جن میں فوجی اور انٹیلی جنس آپریشنز کے ساتھ ساتھ سفارتی اقدامات بھی شامل تھے
اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی پر متعدد فضائی اور زمینی حملے کیے تاکہ فلسطینی تنظیموں پر دباؤ ڈالا جا سکے یا قیدیوں کے مقامات کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ ان کارروائیوں میں ایسی جگہوں کو نشانہ بنایا گیا جو ممکنہ طور پر سرنگوں یا چھپے ہوئے ٹھکانوں پر مشتمل ہو سکتی تھیں، لیکن ان کاروائیوں کے باوجود اسرائیل کو نکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اسرائیل نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا، جن میں ڈرون، جاسوسی آلات، سننے کی ڈیوائسز اور حتیٰ کہ مصنوعی ذہانت بھی شامل ہیں، تاکہ قیدیوں اور ان کی قید کی جگہوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ اس حوالے سے گوگل اور آئی ٹی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں ان کے دست و بازو رہیں۔ اس کے علاوہ، زمینی نیٹ ورکس اور مخبروں کے ذریعے بھی معلومات جمع کی گئیں۔
ان تمام کوششوں کے باوجود، اسرائیل قیدیوں کی رہائی میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکا، جس کی وجہ سے اسرائیلی معاشرے میں ان اقدامات کی مؤثر ہونے اور بحران سے نمٹنے کی حکمت عملی پر شدید بحث و تنقید ہوئی۔ بالآخر اسرائیل کو حماس کی شرائط مان کر مذاکرات کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔