فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے بزنس مین پینل نے مالیاتی ایکٹ 2025میں شامل بعض ترامیم کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
پینل کے مطابق بیس جولائی کو ملک بھر میں ہونے والا شٹر ڈاؤن صرف احتجاج نہیں بلکہ کاروباری طبقے کی ریاست پر عدم اعتماد کا اظہار تھا۔
یہ ہڑتال پنجاب کے مختلف شہروں لاہورفیصل آباد گوجرانوالہ اور سیالکوٹ سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں رضاکارانہ طور پر کی گئی جس میں تاجروں صنعت کاروں تھوک و پرچون فروشوں نے شرکت کی۔

بزنس مین پینل کے چیئرمین میاں انجم نثار نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعات 37اے اور 37 بی کے تحت ٹیکس حکام کو گرفتاری اور مقدمہ چلانے کے اختیارات دیے گئے ہیں جو آئین میں دیے گئے شفاف عمل اور منصفانہ برتاؤ کے اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔
ان کے مطابق یہ اقدامات ایک فعال معیشت کے بجائے سخت نگرانی کی علامت ہیں اور اس سے کاروباری حلقے میں خوف پھیل چکا ہے۔ ان ترامیم کو نہ تو پارلیمنٹ میں شفاف بحث کے ذریعے لایا گیا اور نہ ہی ان پر تجرباتی مراحل میں عمل ہوا۔
اچانک گرفتاری کے اختیارات نقد لین دین پر پابندیاں اور ڈیجیٹل نظام پر فوری عمل درآمد جیسے اقدامات نے کاروباری نظام کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔
میاں انجم نثار نے کہا کہ الیکٹرانک انوائسنگ اور ٹریکنگ سے متعلق ایس آر او 350اور 709کی جلد بازی میں نافذ العملی سے بھی تاجروں کو دشواری کا سامنا ہے۔یہ احتجاج کسی مخصوص علاقے یا شعبے تک محدود نہیں تھا بلکہ بڑے صنعتی شہروں سے لے کر چھوٹے قصبوں تک مکمل اور پرامن ہڑتال کی گئی۔

بزنس مین پینل نے کہا ہے کہ حکومت نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے کاروباری طبقے سے مشاورت کے بجائے دباؤ اور سختی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ان کے مطابق اس طرز عمل سے رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان بھی بدظن ہو رہے ہیں۔
میاں انجم نثار نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ صرف چند شعبے اصلاحات کے خلاف ہیں۔ پنجاب بھر میں دکانیں فیکٹریاں اور سپلائی چین بند ہونا ایک واضح پیغام ہے کہ اب کاروباری برادری کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے وفاقی وزارت خزانہ اور فیڈریشن کی شکایات کمیٹی کے قیام کو تسلیم کیا لیکن اس پر عمل درآمد میں سستی پر تنقید کی۔زبانی یقین دہانی کافی نہیں حکومت کو فوراً نوٹیفکیشن جاری کر کے سخت دفعات کو واپس لینا چاہیے۔
بزنس مین پینل نے کہا ہے کہ وہ اصلاحات اور ڈیجیٹل نظام کی حمایت کرتے ہیں لیکن ان کا نفاذ بغیر تیاری اور مشاورت کے ناقابل قبول ہے۔ ہم نے متعدد بار تجاویز پیش کیں جن میں ڈیجیٹل نظام کی تدریجی شمولیت اور ہراسانی سے تحفظ شامل ہیں لیکن حکومت نے کاروباری طبقے کو اعتماد میں لیے بغیر قانون سازی کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر مالیاتی ایکٹ میں ترمیم نہ کی گئی تو اس کے نتائج کاروبار کی بندش سے بڑھ کر سرمایہ کاری کے انخلااور روزگار کے خاتمے اور برآمدات میں کمی کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔
بزنس مین پینل نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعات س37 اےاور 37 بی فوری طور پر واپس لی جائیں اور ایس آر او 350 اور 709کو نظرثانی کے لیے معطل کیا جائے اور نقد لین دین کی پابندیوں پر عمل درآمد مناسب طریقہ کار طے ہونے تک روکا جائے۔