دنیا بھر کی نظریں اس وقت غزہ پر مرکوز ہیں جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان 19 جنوری کو ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے بعد قیدیوں کے تبادلے کا سلسلہ جاری ہے،حماس سے کی قید سے رہائی پانے والے مسکراتے ہوئے اپنے وطن لوٹ رہے ہیں جبکہ اسرائیلی قید سے نکلنے والے قابل ترس حالت میں باہر آرہے ہیں۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینیامین نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ اس ہفتے حماس چھ یرغمالیوں کو آزاد کرے گا اور اسرائیل غزہ کے شمالی علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں کو واپس جانے کی اجازت دے گا۔
اس معاہدے کے تحت حماس نے اتوار کو چار اسرائیلی فوجیوں کو رہا کیا تھا مگر شہری اربیل یهود کا معاملہ اب تک حل نہیں ہو سکا تھا، جس نے اسرائیل کو یہ الزام عائد کرنے پر مجبور کر دیا کہ حماس نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
اسرائیل کے مطابق حماس کو سب سے پہلے اسرائیلی شہریوں کو رہا کرنا تھا اور پھر فلسطینی قیدیوں کو چھوڑنا تھا۔ لیکن اربیل یهود کا معاملہ پیچیدہ ہو گیا جس کے باعث غزہ کے شمالی حصے میں فلسطینیوں کی واپسی میں تاخیر ہوئی۔
اس کے بعد یہ تنازعہ ختم ہوا اور حماس نے 31 جنوری کو اربیل یهود سمیت تین دیگر یرغمالیوں کو آزاد کرنے کا وعدہ کیا۔
یہ معاہدہ قطر اور مصر کی ثالثی میں ہوا تھا اور اس میں بڑی عالمی طاقتوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
اس معاہدے کے تحت اسرائیل اتوار کے روز سے فلسطینیوں کو شمالی غزہ واپس جانے کی اجازت دینے پر رضامند ہو گیا۔
وہ لوگ جو طویل عرصے سے شمال کی طرف جانا چاہتے تھے، اب بالآخر اپنے گھروں تک پہنچنے کی امید کر رہے ہیں۔
تاہم، اس راستے پر اب بھی کئی مشکلات کا سامنا ہے اور وہاں موجود لوگ جنہوں نے اپنے گھروں کو چھوڑا تھا جبکہ اب بھی غزہ کے جنوبی علاقے میں کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
غزہ کے شمال میں جانے کی کوشش کرنے والے ہزاروں فلسطینی جو ہفتوں سے فوجی رکاوٹوں کا سامنا کر رہے تھے وہ سب ایک نئی امید کے ساتھ بارڈر پر جمع ہو گئے ہیں۔
تاہم ان میں سے بیشتر سردی اور خوف کا شکار ہیں بی بی سی کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ”ہم سڑکوں پر سو رہے ہیں، ہم اپنے گھروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہر بار ہمیں گولیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔”
ان کے مطابق غزہ کے جنوبی علاقے میں ہونے والی لڑائی کے نتیجے میں ان کا گھر تباہ ہو چکا ہے اور وہ کئی دنوں سے بارڈر کے علاقے میں موجود ہیں۔
دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز پیش کی کہ مصر ، اردن اور فلسطینیوں کو اپنے ملکوں میں پناہ دینا چاہیے، لیکن اس تجویز کو حماس اور فلسطینی اتھارٹی نے سختی سے مسترد کر دیا اور مصر و اردن نے بھی اس کو رد کر دیا۔
یہ سچ ہے کہ اس جنگ بندی معاہدے نے 7 اکتوبر 2023 سے جاری جنگ کے اختتام کی امید پیدا کی ہے۔
اس جنگ میں اسرائیل کے 1,200 شہری مارے گئے جبکہ 251 اسرائیلی یرغمالی بنائے گئے۔
دوسری طرف، غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 47,200 فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں بیشتر عام شہری شامل ہیں۔
اب جب کہ یہ معاہدہ مرحلہ وار مکمل ہو رہا ہےپوری دنیا نظریں جمائے ہوئے ہے کہ آیا یہ جنگ بندی طویل المدت امن کا پیش خیمہ ثابت ہو گی یا پھر یہ محض ایک عارضی عہد ہے جس کے بعد دوبارہ خونریز تصادم شروع ہو جائے گا؟ غزہ کے لوگ اس سوال کا جواب چاہتے ہیں۔