تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان شدید جھڑپیں دوسرے دن بھی جاری رہیں۔ جمعے کو دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر بھاری توپ خانے اور راکٹ سسٹمز سے حملے کیے۔
سرحدی تنازع میں اب تک کم از کم 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ تھائی حکام کے مطابق 100000 افراد کو متاثرہ علاقوں سے نکالا جا چکا ہے۔
جھڑپوں میں کمبوڈیا کی جانب سے روسی ساختہ BM-21 راکٹ سسٹم استعمال کیا گیا۔ تھائی فوج نے بھی جوابی فائرنگ کی اور کہا کہ کارروائی صورت حال کے مطابق کی گئی۔
جھڑپوں کا آغاز جمعرات کو متنازع سرحدی علاقے میں چھوٹے ہتھیاروں کی فائرنگ سے ہوا جو جلد ہی بھاری شیلنگ میں تبدیل ہو گئی۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر الزام عائد کیا کہ حملہ اس نے شروع کیا۔
یہ جھڑپیں سرحد کے ایسے چھ علاقوں میں ہوئیں جو تقریبا 130 میل پر پھیلے ہوئے ہیں اور ان علاقوں میں عرصے سے ملکیت کا تنازع موجود ہے۔

تھائی صوبے سورین سے رپورٹس کے مطابق جمعے کے روز وقفے وقفے سے دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور بڑی تعداد میں مسلح فوجی سڑکوں پر تعینات رہے۔ فوجی قافلے، جن میں ٹرک، بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک شامل تھے، سرحدی علاقوں کی طرف روانہ کیے گئے۔
تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب تھائی لینڈ نے بدھ کی شب کمبوڈیا کے سفیر کو ملک سے نکال دیا اور اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ یہ اقدام ایک تھائی فوجی کے بارودی سرنگ سے زخمی ہونے کے بعد اٹھایا گیا، جس کا الزام تھائی لینڈ نے کمبوڈین افواج پر عائد کیا۔ کمبوڈیا نے یہ الزام بے بنیاد قرار دیا۔
تھائی وزارت صحت نے بتایا کہ جمعے کی صبح تک 15 تھائی شہری ہلاک ہو چکے تھے جن میں 14 عام شہری تھے۔ 46 افراد زخمی ہوئے جن میں 15 فوجی شامل ہیں۔

کمبوڈیا کی مرکزی حکومت نے تاحال جانی نقصان کی کوئی تفصیل جاری نہیں کی۔ تاہم کمبوڈین صوبہ اوڈار مینچی کے مقامی حکام کے مطابق ایک شہری ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے جبکہ 1500 خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
تھائی لینڈ نے جمعرات کو چھ ایف سولہ جنگی طیارے سرحد پر تعینات کیے جن میں سے ایک نے کمبوڈین ہدف کو نشانہ بنایا۔ کمبوڈیا نے اس اقدام کو غیر ذمے دارانہ اور وحشیانہ حملہ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: قحط، بمباری اور میڈیا پر پابندیاں: غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر گیا
تھائی لینڈ کو کمبوڈیا پر عسکری برتری حاصل ہے کیونکہ اس کے پاس لڑاکا طیارے اور جدید ہتھیاروں کی بڑی تعداد موجود ہے جبکہ کمبوڈیا کے پاس اس سطح کی جنگی صلاحیت نہیں۔
امریکہ نے دونوں فریقوں سے فوری جنگ بندی اور شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم، جو آسیان کے چیئرمین بھی ہیں، نے کہا کہ انہوں نے تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے رہنماؤں سے بات کی ہے اور انہیں تنازع کے پرامن حل پر آمادہ کیا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ملائیشیا آسیان کے اتحاد اور مشترکہ ذمے داری کے جذبے کے تحت اس عمل میں مدد دینے کو تیار ہے۔