دنیا بھر میں تیزی سے فروغ پاتی مصنوعی ذہانت (اے آئی) ایک جانب جہاں زندگی کو آسان، خودکار اور ڈیجیٹل بنا رہی ہے، وہیں دوسری جانب یہ ٹیکنالوجی ماحولیاتی آلودگی، پانی کی قلت اور توانائی کے بحران کو جنم دے رہی ہے۔
مصنوعی ذہانت کی بدولت چیٹ بوٹس، خودکار گاڑیاں، تصویری جنریٹرز اور ترجمے کی سہولیات نے روزمرہ زندگی میں انقلاب برپا کیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کو تیار اور ٹرین کرنے کے لیے جس سطح کی کمپیوٹنگ درکار ہوتی ہے، وہ بجلی اور پانی کے بے تحاشہ استعمال کا تقاضا کرتی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق صرف ایک بڑے اے آئی ماڈل، جیسے GPT-4 کو ٹرین کرنے میں ہر گھنٹے 1287 میگاواٹ بجلی صرف ہوتی ہے، جو ایک یورپی خاندان کے 120 سال کی توانائی کے برابر ہے۔ اسی ماڈل کی ٹریننگ میں 26 لاکھ لیٹر پانی بھی استعمال ہوتا ہے۔
دنیا بھر کے ڈیٹا سینٹرز، جہاں یہ ماڈلز ٹرین کیے جاتے ہیں، 24 گھنٹے مسلسل چلتے ہیں۔ ان ڈیٹا سینٹرز کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پانی یا بجلی سے چلنے والے کولنگ سسٹمز استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف 2022 میں گوگل نے اپنے ڈیٹا سینٹرز میں 6.4 ارب لیٹر پانی استعمال کیا۔
اے آئی کی دنیا میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ کیا اے آئی کو چھوڑنا ہی واحد حل ہے؟ اس طرح کے مزید سوالات کے جوابات جاننے کے ویڈیو کو مکمل دیکھیں۔