اخبارات میں ضرورت رشتہ کے اشتہارات پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کےلیے یہ کتنا بڑا مسئلہ
بن چکا ہے۔ لڑکے ہیں تو ان کی عمریں ڈھلتی جارہی ہیں اور لڑکیاں ہیں تو بیٹھے بیٹھے بالوں میں چاندی آگئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں کتنے کنوارے لڑکے اور لڑکیاں موجود ہیں جن کی شادی نہیں ہورہی؟
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی کے چار میں سے تین نوجوان غیر شادی شدہ ہیں، جو ایک تشویشناک صورتحال ہے، 2024 میں گیلپ نے ایک سروے جاری کیا جس کی رپورٹ کے مطابق23 فیصد جوان بچے بچیاں غیر شادی شدہ پائے گئے۔ یہ سروے محدود تھا۔ ساؤتھ ایشیا انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ سے زائد خواتین کی عمر 35 سال یا اس سے زائد ہے جو غیر شادی شدہ ہیں ۔
میرا ایک دوست جس کی عمر تقریباً چالیس سال ہے، اس کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟ جناب فرماتے ہیں کہ ابھی تک مجھے میرے لیول کی لڑکی ہی نہیں ملی۔ میں نے کہا عمر تو گزر گئی۔
جناب فرماتے ہیں ”ابھی تو میں جوان ہوں، میری عمر ہی کیا ہے، 30 سال۔” اس کے بالوں کی سفیدی کو فیشن سمجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کا کیا لیول ہے؟
مزید پڑھیں: عمران خان کی رہائی: ’شادی سے پہلے طلاق ہوگئی‘
فرمانے لگے کہ پڑھی لکھی ہو، گوری چٹی ہو، پاک باز، باحیا ہو، میرے حکم کی پابند رہنے والی ہو۔ میں نے جب کہا کہ آپ تو ایسے ہیں؟ آپ کا تو فلاں فلاں کے ساتھ ”چکر” چل رہا ہے۔ تو کہنے لگے کہ میں مرد ہوں، میری مرضی۔
لڑکے تو لڑکے لڑکیاں سے کہیں آگے ہیں۔ ان کی پسند پوچھیں تو پاکستان میں ان کے لیول کا لڑکا نہ ملے۔
اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو معاشی مسئلہ ہے، لڑکی کو ایسا ہمسفرچاہیے جو اچھا کماتا ہو، بینک بیلنس ہو اور گاڑی وغیرہ بھی ہو۔ ہر ماہ شاپنگ کا خرچہ بھی اٹھا سکتا ہو۔ گریجوایٹ لڑکا صفر سے شروع کرکے کماتے کماتے بوڑھا ہوجاتا ہے مگر’پرفیکٹ‘ حالت تک نہیں پہنچ پاتا ۔
دوسری وجہ معاشرتی ناہمواری یا ”بہتر سے بہترین” کی تلاش ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں ادھیڑ پن میں چلے جاتے ہیں لیکن ان کی ”بہترین” کی تلاش ختم نہیں ہوتی۔ وہ اسی تلاش میں ابدی منزل پا جاتے ہیں۔
شادیاں نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ذات برادری بھی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثربرادریاں دوسری برادری کے ہاں رشتہ کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ سوال جب ایسے رشتے کا آتا ہے تو لڑکی یا لڑکے دونوں کو مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ آئندہ ایسی بات سوچنا بھی نہیں، زندہ دفن کردیں گے۔
ضرورت رشتہ کو نظریہ رشتہ بنادیا جاتا ہے۔ پرکھوں کی زبان کو بچانے کےلیے، چاچے، تایوں کی قبروں کو دیکھتے ہوئے اولاد کو قربانی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ بیٹا انجینئر ہوتا ہے تو اس کی شادی اَن پڑھ لڑکی سے کردی جاتی ہے۔
بیٹی ڈاکٹر تو اسے کسی ”بابے دلہے” کی دلہن بنادیا جاتا ہے۔ جیسے اولاد نہ ہو بھیڑ بکری ہو، جہاں چاہا، جیسے چاہا کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا۔ مان جائے تو دیوی نہ مانے تو چھنال۔
یہ بھی پڑھیں: حافظ کی سیاست
اگر بات بن بھی جائے تو لوگ لڑکیوں کا رشتہ دیکھنے جاتے ہیں، وہاں کیا دیکھتے ہیں؟ لڑکی چلتی کیسے ہے؟ اٹھتی، بیٹھتی کیسے ہے؟ اس کا رنگ کیسا ہے؟ ناک اور آنکھیں کیسی ہیں؟ ٹیڑھا تو نہیں دیکھتی، بات کرتے ہوئے ہکلاتی تو نہیں۔
گھر میں کیا کیا ہے؟ جہیز میں کتنا ملے گا؟ چاہے ماں باپ کا گھر بمشکل چلتا ہو لاکھوں جہیز مانگ لیا جاتا ہے۔ جب کھا پی کر تسلی ہوجاتی ہے تو جاتے ہوئے کہا جاتا ہے ”ہمیں آپ کی لڑکی پسند نہیں آئی”۔ سوچیے اس لڑکی پر کیا گزرتی ہوگی۔
جب کسی لڑکی یا لڑکے کے رشتوں کے حوالے سے بار بار انکار کیا جاتا ہے تو وہ ان کےلیے روگ بن جاتا ہے۔ ذہنی بیماریوں، خودکشیوں میں اضافے کی وجہ یہ رویے ہیں جو معاشرے میں تیزی سے پنپ رہے ہیں۔
نوٹ: بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر