Follw Us on:

دہشتگردی اور بگڑتی سیاسی صورتحال، بلوچستان میں بیرونی مداخلت زمینی حقائق پر کیسے اثرانداز ہو رہی ہے؟

مادھو لعل
مادھو لعل
Whatsapp image 2025 07 30 at 11.45.51 pm
بلوچستان میں بدامنی اور سیاسی بحران کو لے کر احتجاجات دیکھنے کو ملے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کے سب سے وسیع مگر ناگہانی ریاست بلوچستان میں دہشتگردی کی لہر، بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال اور بیرونی مداخلتوں نے سانپ کی طرح سوئی ہوئی زمین پر زہر گھول دیا ہے۔ صوبہ میں حالیہ برسوں میں انتہاء پسندانہ حملوں، سیاسی عدم استحکام اور علاقائی مداخلت نے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو ایسا متاثر کیا ہے کہ اس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔

بلوچستان میں طویل عرصے سے سرگرم نیشنل امپٹیویسٹ گروپس جیسے بی ایل  اے، بی ایل ایف، بی آر جی نے 2024 سے 2025 کے دوران دہشتگردانہ کارروائیوں کی نئی جہتیں اختیار کیں۔

گزشتہ ایک عرصے سے بلوچستان میں بدامنی اور سیاسی بحران کو لے کر احتجاجات دیکھنے کو ملے ہیں۔ اس وقت ملک کے دارلحکومت اسلام آباد میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے احتجاج  چل رہا ہے۔ دوسرا جماعتِ اسلامی کی سربراہی میں کوئٹہ سے اسلام آباد کی جانب سے روانہ ہے۔

سربراہ جماعتِ اسلامی مولانا ہدایت الرحمان نے کہا ہے کہ حکومت پریس ریلیز جاری کرے کہ بلوچستان والے اسلام آباد نہ آئیں، ان کے لیے یہاں کچھ بھی نہیں ہے میں اپنے لوگوں کو لےکر چلا جاؤں گا اور دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کروں گا۔

کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر نو نومبر 2024 کو بی ایل اے کے حملے میں 32 افراد ہلاک اور 55 زخمی ہوئے،پہلا واقعہ جو کوئٹہ کے مرکز میں پیش آیا۔ مارچ 2025 میں جعفر ایکسپریس کا اغوا، 38 کے زخمی ہونے اور کم از کم 26 افراد (33 حملہ آور سمیت) ہلاک ہونے کی بدترین مثال رہی۔

لیٹر آپریشن “ہیروف”2.0نے مئی 2025 کے بعد صوبے میں دہشتگردی کو ایک نئے مرحلے میں داخل کیا، 20 سے زائد حملوں میں سیکورٹی فورسز اور حکومتی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔

Whatsapp image 2025 07 30 at 12.30.29 am
ہمیں پیناڈول کی گولی کی بجائے ریاست کلاشن کی گولی دیتی ہے۔ (فوٹو: جماعتِ اسلامی پاکستان)

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان کاکہنا تھا کہ بلوچستان تحریک شروع کرنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ 1947 سے ہی ریاست کی جانب سے کی گئی ناانصافی کا یہ ردِعمل ہے، ہمیں پیناڈول کی گولی کی بجائے ریاست کلاشن کی گولی دیتی ہے۔ اسلام آباد جاکر ہم حکمرانوں تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے نکلے ہیں۔

بلوچ دہشتگرد تنظیمیں اپنی حکمت عملی کو وسیع تر مقامی احتجاج سے زیادہ منظم اور خطرناک شکل میں تبدیل کر چکی ہیں، جس سے ظاہر ہے کہ یہ صرف داخلی بغاوت نہیں، بلکہ بڑے سیاسی اہداف کے تحت کام ہو رہا ہے۔

صوبے میں حکومتی نالائقی، بد انتظامی اور باشندوں کی محرومی نے نوجوانوں میں اختلافی سوچ کو ہوا دی ہے۔ طبقاتی و نسلی محرومی، بلند غربت شرح (تقریباً 40 فیصد) اور بیروزگاری نے نوجوانوں کو عسکری تنظیموں کی گرفت میں آنے کے لیے آمادہ کیا۔

سیاسی جماعتیں غیر متحد، مقامی نمائندگی غیر موثر، جب کہ وفاقی سطح پر بلوچستان کی اہمیت کو کم سمجھا گیا۔ یہی حالات مقامی ناراضگی کو شدت سے بیرونی ایجنڈوں کے لیے استعمال کرنا ممکن بناتے ہیں۔

پاکستان کی کثیر الزامات میں سے سب سے بھاری انڈیا کے را (RAW) کو دیا جاتا ہے، جس پر تحریک بلوچستان میں اندرونی خرابی پھیلانے اور دہشتگرد گروپوں کو فنڈ کرنے کا الزام ہے۔ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھا‍و کی گرفتاری نے ثابت کیا کہ انڈیا بلوچستان میں سیاسی اور معاشی منصوبے خاص طور پر سی پیک کو متاثر کرنے کے لیے دہشتگردی کا سہارا لیتا رہا۔

اسی طرح ایران اور افغانستان میں فعال بلوچ تنظیمیں سرحد پار محفوظ ٹھکانوں سے حملے کی منصوبہ بندی کرتی آئی ہیں۔ 2024–2025 میں پاکستان اور ایران نے ایک دوسرے پر جیش العدل سے تعلق رکھنے والے بیس واپس ہدف بنانے کے الزام لگائے، نتیجتاً دوطرفہ کارروائیاں عمل میں آئیں جن میں مبینہ ایرانی ایئربمبنگ، اور پاکستانی جوابی حملے شامل ہیں ۔

یہ سرحدی تناؤ بلوچستان کی نیشنل مسائل سے آگے بڑھ کر ایک علاقائی حکمت عملی کا حصہ نظر آتا ہے، جس کا مقصد سی پیک، گوادر پورٹ اور چین کے سرمایہ کاری منصوبوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔

Whatsapp image 2025 07 30 at 12.28.50
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے احتجاج  چل رہا ہے۔ (تصویر: پاکستان میٹرز)

بعض عالمی طاقتیں بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتی نظر آتی ہیں، چونکہ بلوچستان خطے کی نفسیاتی اور اقتصای خامیوں کو برائے نام استحکام دشمنی کی راہوں میں استعمال کرتا۔

ان حملوں کے نتیجے میں سیکڑوں افراد جان سے گئے، سویلینز، سیکیورٹی اہلکار، خواتین و بچے اور ترقیاتی کارکن شامل ہیں۔ جعفر ایکسپریس اغوا اور کوئٹہ اسٹیشن بم دھماکے جیسے واقعات نے نہ صرف آنکھوں دیکھا بھگتا نقصان پہنچایا بلکہ مقامی عوام کے دلوں میں خوف و عدم تحفظ کا خطرہ بھی گہرا کیا۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے رہنما جماعتِ اسلامی عبدالمتین اخونزادہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہر طرف بدامنی ہے، تعلیم و روزگار نہیں ہے، بارڈر کے چاروں راستے بند ہیں، ہمارے کاروبار بند ہیں اور ہم اسی وجہ سے اسلام آباد جارہے ہیں تاکہ وہاں جاکر پوچھیں کہ کیوں آپ کا ہمارے ساتھ یہ رویہ ہے؟ کیا آپ لوگ ہمیں زندہ درگور کرنا چاہتے ہیں؟

ان حملوں نے بلوچستان کو سرمایہ کاروں کے لیے ناموافق علاقہ بنا دیا ہے۔ گوادر جیسے منصوبوں پر تیز ترقی سے زیادہ سیاسی کشیدگی اور شورش نے سرمایہ کاروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔

انسداد دہشتگردی اور اسکیورٹی کا بھاری جواب بھی سماجی تانے بانے کو متاثر کر گیا، انفرادی اختطاف، جبری گمشدگیاں اور مقبوضہ مقامات پر میڈیا بلیک آؤٹ نے انسانی حقوق کی پامالی اور ریاستی ساکھ کو سوالات کے دائرے میں لا کھڑا کیا۔

حکومت نے آئینی و سیاسی سطح پر بلوچستان کی صورتحال کو نظرانداز نہیں کیا۔ قومی اسمبلی میں دہشتگردوں کی سزا اور حکومت کے خلاف یکجہتی قراردادیں منظور کی گئیں۔ وفاقی حکومت نے انسداد دہشتگردی کے آپریشنز جیسے آپریشن ہیروف  2.0 کے تحت اسلحہ برآمدگی کے شبہ میں سیکڑوں عناصر کو بیچکار کیا اور سیکورٹی فورسز کو مزید تقویت دی۔

نوجوانوں کے لیے تعلیم و روزگار کے منصوبے شروع کیے گئے، جب کہ سی پیک کے تعاون سے متعدد ترقیاتی پیکجز کا اعلان ہوا تاکہ معاشی محرومی کم ہو اور نوجوانوں میں انتہاء پسندی کا رجحان کمزور کیا جا سکے۔ سیکورٹی اداروں کی جدید تربیت، ڈرون نگرانی اور کوریا نیٹ ورکنگ جیسے نظام نافذ کیے گئے ہیں۔

بلوچستان کا مستقبل سیاسی نمائندگی کی مضبوطی، معاشی انصاف، بیرونی طاقتوں کی سازشوں کا موثر مقابلہ اور ریاستی نیوٹرلائزیشن جیسے کئی عوامل پر منحصر ہے۔

Cpec iii
نوجوانوں کے لیے تعلیم و روزگار کے منصوبے شروع کیے گئے۔ (فوٹو: گوگل)

اگر سیاسی جماعتیں مقامی سطح پر نمائندہ، شفاف اور جوابدہ ہوں، تو نوجوانوں میں شرپسندی کی جگہ امن کا جذبہ پروان چڑھ سکتا ہے۔ غیراعلانیہ اثر و رسوخ والے ممالک جیسے انڈیا، ایران اور افغانستان کو بلوچستان کی ترقی میں مداخلت کرنے سے روکا جائے، تو دہشتگردی میں کمی ممکن ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ سی پیک جیسے منصوبوں میں عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال کیا جائے۔

مجموعی طور پر بلوچستان کا مستقبل دو راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گاکہ یا تو یہ علاقائی طاقتوں کے ایجنڈوں کا آلہ بنتا رہے گا یا امن، ترقی اور سیاسی شمولیت کی راہ پر گامزن کر دیا جائے گا۔ ایسی حکمت عملی درکار ہے جو بیرونی مداخلت کو ناکام بنائے، سیاسی اعتماد کو بحال کرے اور مقامی عوام کو خودمختار ترقی کا حصہ بنائے۔

یہ صورتحال بلوچستان کے اندر شدت پسندانہ تشدد اور سیاسی انتشار کی ایک پیچیدہ کہانی ہے، جہاں بیرونی مداخلت نے زمین کے حقائق اور شہریوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بلوچستان کو امن کے راستے پر لانے کے لیے حکومت، سیول سوسائٹیزاور مقامی عوام کو مشترکہ حکمت عملی بنانی ہوگی تاکہ خطے کو دیرپا ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس