وفاقی کابینہ نے پاکستان میں مقامی اسمبل شدہ اور درآمد شدہ گاڑیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ملک کا پہلا آٹو سیفٹی قانون پاس کر دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایکسپریس ٹربیون کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کابینہ کے ایک رکن نے کہا ہے کہ اس قانون کا مقصد پاکستان میں بننے یا درآمد ہونے والی تمام گاڑیوں کے لیے کم از کم حفاظتی معیار کا نفاذ ہے۔
صارفین اور پارلیمنٹیرینز کی شکایات کے باوجود یہ پہلی بار ہے کہ وزارت صنعت و پیداوار نے گاڑیوں کی حفاظت کے لیے قانونی ضابطے تجویز کیے ہیں تاکہ صارفین کو تحفظ ملے۔
کابینہ کی منظوری کے بعد یہ بل پارلیمانی کمیٹیوں کے پاس جائے گا جہاں اس کا جائزہ لیا جائے گا اور ضروری ہوا تو ترامیم کی جا سکیں گی۔ بعد ازاں دونوں ایوانوں میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا۔

یہ قانون پاکستان میں چلنے والی تمام گاڑیوں پر لاگو ہوگا سوائے ان گاڑیوں کے جو فوجی مقاصد کے لیے بنائی یا تبدیل کی گئی ہوں۔ مسودہ قانون کے مطابق خلاف ورزی کرنے والے چاہے وہ گاڑی بنانے والے ہوں یا درآمد کنندگان چھ ماہ سے تین سال تک قید اور 50 ہزار سے 10 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا کا سامنا کر سکتے ہیں۔
کابینہ کمیٹی کی بحث کے دوران کچھ ارکان نے قید کی سزا کے خلاف احتجاج کیا لیکن وزارت صنعت و پیداوار نے اپنی سفارش پر قائم رہی۔
قانون نافذ ہونے کے بعد کوئی بھی گاڑی رجسٹر کیے بغیر فروخت نہیں کر سکتا۔ غیر رجسٹرڈ گاڑیاں بنانے یا درآمد کرنے والا ایک سال تک قید یا کم از کم 50 ہزار روپے جرمانے یا دونوں سزاوں کا حقدار ہوگا۔
کسی گاڑی کی تصدیقی سند جاری نہ کرنے پر چھ ماہ قید یا پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔
مسودہ قانون کے ایک اور شق کے تحت اگر کوئی گاڑی یا اس کا کوئی حصہ جس میں نقص ہو واپس نہ بلایا گیا تو دو سال قید یا کم از کم 50 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزا ہو گی۔
انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کے حکم پر اصلاحی اقدامات نہ کرنے والے کو کم از کم تین سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی شرط کے تحت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے لیے تمام متعلقہ قوانین جولائی 2025 تک پیش کرنا ضروری ہیں۔ اس پابندی کے خاتمے کے بعد صرف پانچ سال سے کم عمر گاڑیاں درآمد کی جا سکیں گی بشرطیکہ وہ حفاظتی اور ماحولیاتی معیار پر پورا اتریں۔

حکومت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ستمبر سے پانچ سال سے کم عمر گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ہٹانے کا عمل شروع کیا جائے گا اور آئندہ سال مکمل طور پر درآمدات کھول دی جائیں گی بشرطیکہ نئے قانون کے تحت حفاظتی اور ماحولیاتی معیار نافذ ہوں۔
بل میں ایک سال کی رعایت کا بھی ذکر ہے تاکہ درآمد کنندگان اور مقامی اسمبلرز حفاظتی تقاضوں کو پورا کر سکیں۔
قانون کے مطابق کوئی بھی شخص یا کمپنی بغیر رجسٹریشن مقررہ سرمائے اور انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ سے لائسنس حاصل کیے بغیر گاڑیاں پرزے یا کمپوننٹس درآمد نہیں کر سکے گی۔ تحفہ یا سامان کے طور پر درآمد کی جانے والی گاڑیوں کو اس قانون سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔
بل میں یہ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے کہ تمام ساز و سامان اور گاڑیوں میں صارفین اور دوسروں کے لیے کوئی حفاظتی خطرہ نہ ہو۔
کسی گاڑی کی فروخت سے قبل اس پر لمبائی چوڑائی وزن نشست کی گنجائش محوری تعداد اور دیگر حفاظتی معلومات انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کی ہدایت کے مطابق ظاہر کرنا لازم ہوگا۔
مزید پڑھیں؛ فرانس کے بعد کینیڈا نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا
برقی گاڑیوں میں بیٹری کی قسم کارکردگی پائیداری، ری سائیکلنگ کی ہدایات اور چارجنگ کے معیارات کا ذکر بھی لازمی ہوگا۔
تمام گاڑیوں پرزوں اور اجزاء کے لیے تصدیقی سند ہونا ضروری ہے۔ گاڑی بنانے والے یا درآمد کنندگان کو ایسی گاڑیاں یا پرزے واپس بلانے ہوں گے جو حفاظتی خطرہ ہوں چاہے وہ معیاری منظوری یا قسم کی منظوری کے مطابق ہوں یا نہ ہوں۔
اگر کوئی کمپنی رضاکارانہ طور پر نقص دار گاڑی یا پرزہ واپس نہ بلائے تو پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور دو سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اگر انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کو حفاظتی خطرہ کا علم ہو اور کمپنیاں عملدرآمد نہ کریں تو بورڈ خود بھی گاڑی یا پرزہ واپس بلوا سکتا ہے۔
وفاقی وزارت صنعت و پیداوار کے ترجمان کے مطابق یہ قانون گاڑیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم قدم ہے جو صارفین کے تحفظ کو بہتر بنائے گا۔
واضع رہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب گاڑی بنانے والوں اور تجارتی درآمد کنندگان پر حفاظتی معیارات کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اب تک پاکستان نے اقوام متحدہ کے اقتصادی کمیشن برائے یورپ کے 1958 کے 163 معیارات میں سے صرف 17 پر عمل درآمد کیا تھا۔