کے-الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) مونس علوی کو کام کی جگہ پر ہراسانی کا مرتکب قرار دے دیا گیا۔ صوبائی محتسب برائے انسدادِ ہراسانی سندھ نے ان کی فوری برطرفی اور متاثرہ خاتون کو 25 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
یہ فیصلہ ادارے کی سابق چیف مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکیشن آفیسر مہربین عزیز خان کی جانب سے دائر کردہ شکایت پر سنایا گیا۔
شکایت میں کہا گیا تھا کہ کے-الیکٹرک کے اعلیٰ افسران کی جانب سے انہیں مسلسل ذہنی دباؤ، پیشہ ورانہ تضحیک اور خوف و ہراس کا سامنا رہا، جو ایک منظم ہراسانی کی شکل اختیار کر گیا تھا۔
فیصلے کے مطابق، مونس علوی کو سیکشن 4(4)(ii)(c) کے تحت فوری برطرف کیا جائے گا، جبکہ سیکشن 4(4)(ii)(e) کے تحت انہیں 25 لاکھ روپے متاثرہ خاتون کو ادا کرنے ہوں گے۔

اگر مقررہ 30 دن کی مدت میں رقم ادا نہ کی گئی تو عدالت کے حکم پر ان کی جائیداد یا بینک اکاؤنٹس سے رقم وصول کی جائے گی، نادرا کو ان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ معطل کرنے کی ہدایت دی جا سکتی ہے، اور توہین عدالت کی کارروائی بھی عمل میں آ سکتی ہے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ہراسانی کی تعریف صرف جنسی نوعیت تک محدود نہیں، بلکہ جب کسی ملازم کو مستقل دباؤ، تضحیک یا خوف کے ماحول میں رکھا جائے، تو وہ بھی ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے۔
فیصلے میں امریکی اسکالر کیتھرین مک کنن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ طاقت کے عدم توازن کا استعمال خواتین کو ان کے پیشہ ورانہ سفر میں روکنے کا ایک ذریعہ بنتا ہے۔
اس کیس میں دیگر افسران, رضوان دالیہ (چیف پیپل آفیسر)، واحد اصغر (چیف سیکیورٹی) اور خالد رفی (بورڈ ممبر), کو براہ راست شواہد نہ ہونے کی بنیاد پر الزامات سے بری قرار دیا گیا ہے۔