Follw Us on:

چینی کی قیمت میں اضافہ ہونے پر حکومت نے متعدد شوگر مل مالکان کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Sugar picture
حکومتی ذرائع کے مطابق چینی کے ذخائر کا کنٹرول بھی سنبھال لیا گیا ہے۔ (فوٹو: ڈان نیوز)

حکومت نے چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر شوگر مافیا کے خلاف سخت اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ کئی بااثر شوگر مل مالکان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیے گئے ہیں تاکہ ان کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی لگائی جا سکے۔

اس اقدام کا مقصد ذخیرہ اندوزوں اور قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھانے والوں پر دباؤ ڈالنا ہے۔ کئی شہروں میں چینی کی قیمت 200 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے جبکہ سرکاری نرخ 173 روپے ہے۔

وزیرِ خوراک رانا تنویر حسین نے تصدیق کی کہ کئی مل مالکان کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں، تاہم ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

حکومتی ذرائع کے مطابق چینی کے ذخائر کا کنٹرول بھی سنبھال لیا گیا ہے۔ حکومت پر اس وقت عوامی اور پارلیمانی دباؤ ہے کہ وہ چینی کی قیمتوں میں استحکام لائے۔

یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں۔ ماضی میں بھی یہ طریقہ کار دیکھا گیا ہے: شوگر ملز، جو اکثر سیاسی شخصیات کی ملکیت ہوتی ہیں، حکومت سے برآمد کی اجازت حاصل کر کے ملک میں قلت پیدا کرتی ہیں۔

Sugar store
قیمتوں میں اضافے کے بعد حکومت نے جولائی میں 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی منظوری دی. (فوٹو: دی نیوز انٹرنیشنل)

اس کے بعد قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور حکومت چینی درآمد کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے، جس سے مل مالکان منافع کماتے ہیں اور ملک کا زرِ مبادلہ ضائع ہوتا ہے۔

اس سال بھی یہی صورتحال سامنے آئی۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد حکومت نے جولائی میں 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی منظوری دی۔ اس سے قبل ملز کو 1.5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ایک معاہدے کے تحت ملز کو 165 روپے فی کلو چینی فروخت کرنی تھی، لیکن قیمتوں میں کمی نہ ہو سکی۔

رانا تنویر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ چینی کی قلت مصنوعی ہے اور ملک میں وافر ذخائر موجود ہیں۔ حکومت چینی کے شعبے سے خود کو نکالنے کا ارادہ رکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ مارکیٹ فورسز خود قیمتوں کا تعین کریں۔

وزیر نے بتایا کہ حکومت نے 7.5 لاکھ ٹن چینی برآمد کی اور 402 ملین ڈالر حاصل کیے۔ حکومت نے 5 لاکھ ٹن چینی کا بفر اسٹاک بھی محفوظ رکھا ہے۔ اب صرف 3 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا ارادہ ہے جس پر 150 ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔

موجودہ ذخیرہ 60 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن ہے، جو سال بھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ تاہم گنے کی پیداوار میں کمی، کم پسائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے باعث چینی کی پیداوار متاثر ہوئی۔

دوسری طرف پی ٹی آئی نے حکومت پر 287 ارب روپے کے نقصان کا الزام لگاتے ہوئے اس بحران کی تحقیقات کے لیے کمیشن کا مطالبہ کیا ہے۔ پارٹی کے مطابق یہ ایک منظم لوٹ مار کا منصوبہ ہے جسے سیاسی اشرافیہ اور ریاستی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

عالمی منڈی میں بھی پاکستان کی جانب سے چینی کی خریداری کا عمل جاری ہے۔ ایک ٹینڈر میں 1 لاکھ میٹرک ٹن چینی کے لیے سب سے کم بولی 539 ڈالر فی ٹن ملی ہے، جس پر غور جاری ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس