چین کی تیار کردہ ایک نئی مصنوعی ذہانت کی ایپ “ڈیپ سیک” نے گزشتہ چند ہفتوں میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا ہے اور اس کی مقبولیت آسمان کو چھو رہی ہے۔
اس ایپ نے نہ صرف چیٹ جی پی ٹی جیسے مشہور حریفوں کو پیچھے چھوڑا ہے بلکہ امریکا، برطانیہ اور چین کے ایپل ایپ سٹور پر بھی ٹاپ ریٹیڈ مفت ایپلی کیشن کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔
رواں برس جنوری میں اپنے لانچ کے بعد سے اس ایپ کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
ڈیپ سیک کی کامیابی نے مصنوعی ذہانت کی صنعت میں ایک نیا تنقیدی سوال اٹھا دیا ہے جیسا کہ ‘کیا امریکا اب بھی اے آئی کا لیڈر ہے؟ کیا چین نے اپنے طور پر اس صنعت میں امریکی برتری کو چیلنج کر دیا ہے؟
یہ چینی ایپ اوپن سورس ‘ڈیپ سیک وی تھری’ ماڈل پر ڈیزائن کی گئی ہے جسے محققین کے مطابق چھ ملین ڈالر کی لاگت میں تیار کیا گیا ہے۔
یہ تخمینے اس بات کا واضح اشارہ دیتے ہیں کہ چین میں ای آئی کے ماڈلز تیار کرنے کی قیمت وہ نہیں رہی جو پہلے سمجھا جاتا تھا۔
چیٹ جی پی ٹی اور دیگر ایپلی کیشنز پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے مگر ڈیپ سیک کم لاگت اور اعلیٰ معیار کی بدولت اس میدان میں سبقت لے گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیپ سیک کے کامیاب لانچ نے ای آئی کی صنعت میں ایک نیا ابھار پیدا کر دیا ہے۔

کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کا ماڈل چیٹ جی پی ٹی جیسے جدید ترین ماڈلز کے برابر ہے۔
ڈیپ سیک ‘آر ون’ جو کہ کمپنی کا تازہ ترین ماڈل ہے یہ ریاضی، کوڈنگ اور عمومی زبان کے استدلال جیسے پیچیدہ کاموں میں مہارت رکھتا ہے۔
اس ماڈل کی کامیابی کا موازنہ 1957 میں سوویت یونین کے پہلے مصنوعی زمینی سیٹلائٹ ‘سپوٹنک’ سے کیا جا رہا ہے جس نے اس وقت دنیا کو چونکا دیا تھا۔
دنیا کی مشہور ٹیکنالوجی کمپنیوں اینویڈیا، مائیکروسوفٹ اور میٹا کے شئیرز میں شدید گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔
اسی طرح یورپی کمپنیوں کے شئیرز کی قیمتیں بھی گر گئی ہیں۔
ایک ڈچ چپ کمپنی اے ایس ایم ایل کے شئیرز میں 10 فیصد سے زیادہ کمی آئی اور سیمنز انرجی جو کہ ای آئی ہارڈ ویئر بناتی ہے اس کمپنی کے شئیرز کی قیمت میں 21 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔
دوسری جانب سٹی انڈیکس کی سینئر مارکیٹ تجزیہ کار فیونا سنکوٹا کا کہنا ہے کہ “کم قیمت والے چینی ورژن کو پہلے اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی تھی مگر اس کی لانچ کے بعد مارکیٹ میں ایک نئی پریشانی دیکھنے کو ملی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ کو اچانک یہ کم لاگت والا ماڈل مل جائے تو اس سے حریفوں کے منافع پر اثر پڑے گا خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ وہ پہلے ہی زیادہ مہنگے ماڈلز اور انفراسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔
چینی اے آئی ماڈلز کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ وہ ترقی ہے جس کا سامنا امریکی کمپنیوں کو ایک دن ضرور کرنا پڑے گا۔

سنگاپور میں مقیم ٹیکنالوجی ایکویٹی ایڈوائزر وے سرن لنگ نے خبردار کیا ہے کہ “یہ تبدیلی پوری ای آئی سپلائی چین میں سرمایہ کاری کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔”
وہ کہتے ہیں کہ اس نئے کم لاگت چینی ماڈل نے امریکا کی بڑی اے آئی کمپنیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
تاہم سٹی بینک کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کے پاس اب بھی جدید ترین چپس تک رسائی ہے اور یہ بات چینی کمپنیوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہو سکتی ہے۔
امریکا نے 2021 میں چین پر جدید چپس کی فروخت پر پابندیاں عائد کی تھیں اور اس کے بعد چینی کمپنیوں کو نئے طریقوں پر تجربات کرنے پڑے ہیں۔
یہ چینی کمپنیوں کا ذہانت سے کام لینے کا نتیجہ ہے کہ وہ کم کمپیوٹنگ پاور والے ماڈلز تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جو نہ صرف سستے ہیں بلکہ ان کی کارکردگی بھی اعلیٰ ہے۔
ڈیپ سیک کی بنیاد 2023 میں چین کے شہر ہانگزو میں لیانگ وینفینگ نے رکھی تھی۔
40 سالہ لیانگ ایک تجربہ کار انجینئر ہیں جنہوں نے چین میں ایک اسٹور قائم کر رکھا تھا جہاں ایونیڈیا اے 100 چپس بیچی جاتی تھیں۔
جب چین پر یہ چپس درآمد کرنے کی پابندی عائد کی گئی تو انہوں نے سستی چپس کے ساتھ اپنے اے آئی ماڈلز کی تیاری کا عمل شروع کیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس وقت 50 ہزار جدید چپس موجود تھیں جنہیں انہوں نے کم لاگت والی سستی چپس کے ساتھ جوڑ کر ڈیپ سیک کو کامیابی کے ساتھ لانچ کیا۔
ڈیپ سیک کی کامیابی نے صرف چین میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی مصنوعی ذہانت کے میدان میں نئے سوالات اور چیلنجز کو جنم دیا ہے،جو نہ صرف بڑی امریکی ٹیک کمپنیوں کے لیے ایک چیلنج ہے بلکہ عالمی ای آئی مارکیٹ کے لیے بھی ایک سنگین موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین اس میدان میں امریکا کی برتری کو چیلنج کر سکے گا؟