ذیابیطس کی ایک ایسی نئی قسم بھی ہے جو کم وزن والے افراد کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔
بنکاک میں ہونے والی عالمی ذیابیطس کانفرنس میں ماہرین صحت نے انکشاف کیا کہ کم باڈی ماس انڈیکس بی ایم آئی والے افراد بھی ذیابیطس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ ذیابیطس کی نہ تو ٹائپ ون ہے اور نہ ہی ٹائپ ٹو بلکہ اسے ٹائپ فائیو ذیابیطس کہا جا رہا ہے۔
بی ایم آئی کا حساب جسم کے وزن اور قد کے تناسب سے کیا جاتا ہے۔ بی ایم آئی 25 یا اس سے زیادہ ہونے والے افراد موٹاپے کے زمرے میں آتے ہیں تاہم ماہرین نے کہا ہے کہ ٹائپ فائیو ذیابیطس کا شکار وہ افراد ہو سکتے ہیں جن کا بی ایم آئی 19 سے کم ہو۔
ان افراد کے جسم میں انسولین کی کمی ہوتی ہے جو ذیابیطس کی ایک نئی قسم کا سبب بنتی ہے۔
عالمی ذیابیطس فیڈریشن کے صدر پروفیسر پیٹر شوارز کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو موٹاپے کا شکار نہیں لیکن ان کے جسم میں انسولین پیدا نہیں ہوتی انہیں ٹائپ فائیو ذیابیطس کی زمرے میں شامل کیا جانا چاہیے۔

انھوں نے تحقیق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ بیماری کس طرح ہوتی ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں۔
پروفیسر ڈاکٹر فیلکس جیباسنگ ویلور کرسچن میڈیکل کالج کے شعبہ اینڈوکرینولوجی سے وابستہ ہیں انھوں نے خبر رساں ایجنسی بی بی سی تمل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریضوں میں انسولین پیدا ہوتی ہے لیکن جسم میں حساسیت بڑھنے کی وجہ سے یہ خون میں شوگر کی سطح کو مستحکم نہیں رکھ پاتی۔
لیکن ٹائپ فائیو ذیابیطس میں یہ مسئلہ اس طرح ہوتا ہے کہ جسم میں انسولین کم ہوتی ہے اور ایسے افراد کا بی ایم آئی 19 سے کم ہوتا ہے۔ اس بیماری کو ادویات کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے جبکہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کو انجیکشن کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
ویلور کرسچن میڈیکل کالج کی تحقیق کے مطابق ایسے افراد کو ٹائپ فائیو ذیابیطس ہونے کا زیادہ امکان ہے جن کا بی ایم آئی 19 سے کم ہو جو بچپن سے ہی غذائی قلت کی وجہ سے کم وزن والے ہوں اور جن کے جسم میں انسولین کی سطح کم ہو۔
مزید پڑھیں: ’مضبوط سفارتی تعلقات‘، ایرانی صدر اپنے پہلے سرکاری دو روزہ دورے پر آج پاکستان پہنچیں گے
1955 میں ہیو جونز نے جمیکا میں ان افراد پر تحقیق کی تھی جن کا بی ایم آئی کم تھا۔ انھوں نے معلوم کیا کہ ان افراد میں نہ تو ٹائپ ون ذیابیطس تھی اور نہ ہی ٹائپ ٹو بلکہ ایک مختلف قسم کی ذیابیطس تھی جسے بعد میں غذائیت سے متعلق ذیابیطس ملیٹَس ایم آر ڈی ایم کہا گیا۔
حال ہی میں 2022 میں ویلور کرسچن میڈیکل کالج کی تحقیق نے یہ بات سامنے رکھی کہ کم وزن اور غذائی قلت کا شکار افراد میں نہ تو ٹائپ ون اور نہ ہی ٹائپ ٹو ذیابیطس پائی جاتی ہے۔ بلکہ ان افراد میں ایک مختلف قسم کی ذیابیطس یا آیم آر ڈی لاحق ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر فیلکس جیبازنگ نے کہا کہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ غذائی قلت کا شکار افراد کو ذیابیطس نہیں ہوتی لیکن اگر ان افراد کو ٹائپ ون یا ٹائپ ٹو ذیابیطس کے لیے دی جانے والی دوائیں دی جائیں تو یہ ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس پر تحقیق جاری رہنی چاہیے تاکہ ٹائپ فائیو ذیابیطس سے متاثرہ افراد کو مناسب علاج فراہم کیا جا سکے۔
مستقبل میں اس نئی بیماری کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اس کے شکار افراد کو بہتر علاج مل سکے۔
واضع رہے کہ انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، اور کئی دیگر ممالک میں اس قسم کے مریض پائے گئے۔ عالمی ادارہ صحت نے 1985 میں اس بیماری کو ذیابیطس کی ایک نئی قسم کے طور پر تسلیم کیا تھا لیکن 1999 میں اسے اس فہرست سے نکال دیا گیا کیونکہ غذائی قلت کو ذیابیطس کا سبب تسلیم نہیں کیا گیا۔