پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 14 اگست یوم آزادی کے موقع پر ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کیا ہے، یہ فیصلہ پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کیا گیا، جہاں ملک گیر مظاہروں کے دوسرے مرحلے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ یہ احتجاج حکومت کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری اور قانونی کارروائیوں کے خلاف ہے، جسے وہ سیاسی انتقام اور بدعنوانی کے خلاف آواز کو دبانے کی کوشش سمجھتی ہے۔
پی ٹی آئی کا آزادی کے دن احتجاج کا اعلان لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے یا پھر سیاسی دباؤ کو بڑھانے کے لیے اس حوالے سے ماہر عالمی امور پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان نےپاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریکِ انصاف نے اس دن کا انتخاب علامتی طور پر کیا ہے، تاکہ قومی جذبات کے ساتھ اپنی سیاسی جدوجہد کو جوڑا جا سکے۔ یومِ آزادی جیسے دن پر احتجاج عوامی ہمدردی سمیٹنے اور ریاستی جبر کو نمایاں کرنے کی ایک حکمت عملی ہو سکتی ہے۔
پہلے مرحلے کے احتجاج کے دوران ملک بھر میں پولیس نے سخت کارروائی کی، جس میں 240 سے زائد اپوزیشن کارکن گرفتار ہوئے۔ لاہور میں خاص طور پر پولیس نے 122 افراد کو سڑکیں بلاک کرنے اور امن و امان خراب کرنے کی کوشش کے الزام میں حراست میں لیا۔ حکومتی ترجمانوں کا کہنا تھا کہ قانون کی بالادستی اور امن و امان کے قیام کے لیے یہ اقدامات ضروری تھے، تاہم پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اس کارروائی کو جمہوری حق کو دبانے کی کوشش قرار دیا۔
پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے احتجاج کریں گے مگر ہر مسئلے کا حل احتجاج نہیں ہوتا اس حوالے سے ڈاکٹر عرفان نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پُرامن احتجاج کے آئینی حق کی حامل ہیں۔ خاص طور پر جب سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہوں کہ فیصلے غیر منصفانہ ہیں تو پُرامن احتجاج ایک سیاسی ہتھیار کی مانند ہو جاتا ہے۔ لیکن قانونی عمل سے فرار یا عدلیہ پر دباؤ ڈالنا آئینی جواز سے باہر تصور کیا جائے گا۔

پی ٹی آئی کا یہ احتجاج ایک طاقتور سیاسی اشارہ ہے جو حکومت کو مخاطب کرتا ہے کہ عمران خان کی رہائی کے بغیر سیاسی بحران حل نہیں ہوگا۔ یومِ آزادی جیسا قومی موقع احتجاج کے لیے منتخب کرنا پی ٹی آئی کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
ڈاکٹر محمد عرفان نے کہا کہ اگر احتجاج پرامن ہوا اور منظم بیانیہ کے تحت ہو تو یہ حکومت اور ریاستی اداروں پر دباؤ ڈالنے کا مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔ تاہم موجودہ صورتحال میں کوئی بھی اشتعال انگیزی پی ٹی آئی کو ہی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
حکومت کے موقف کے مطابق عمران خان کے خلاف قانونی کارروائیاں مکمل طور پر قانون کے دائرے میں ہیں اور کسی قسم کا سیاسی دباؤ ان کارروائیوں پر اثر انداز نہیں ہو رہا۔ حکومتی نمائندے بارہا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ تاہم، پی ٹی آئی اس دعوے کو مسترد کرتی ہے اور اسے عدلیہ پر سیاسی دباؤ کے تحت کیے جانے والے فیصلے قرار دیتی ہے۔
ڈاکٹر محمد عرفان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمات جمہوریت پر دو طرفہ اثر ڈال رہے ہیں۔ ایک طرف قانون کی بالادستی کی مثال بنائی جا رہی ہے تو دوسری طرف عوامی اعتماد میں کمی اور اداروں کی کارگردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں بھی سیاسی احتجاجات نے قومی یکجہتی اور استحکام کو متاثر کیا ہے۔ یومِ آزادی جیسے مواقع پر سیاسی اختلافات کو سامنے لانے سے قوم میں تقسیم کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جس سے ملک کی سلامتی اور ترقی متاثر ہو سکتی ہے۔ اس تناظر میں، سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے سیاسی اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔

ڈاکٹر محمد عرفان نےکہا کہ ملک پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ یومِ آزادی جیسے موقع پر احتجاج جذبات کو مزید بھڑکا سکتا ہے۔ اگر نکتہ نظر پرامن انداز میں پیش کیا جائے تو شاید کچھ مثبت اثر ہو، ورنہ صورتحال نازک ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر محمد عرفان نے مزید کہا کہ تحریکِ انصاف کو جذبات سے نکل کر حقیقت پر مبنی سیاست کی اشد ضرورت ہے۔ مذاکرات، سیاسی اتحاد اور قانونی راستے اختیار کیے بغیر پارٹی نہ صرف عوامی سطح پر کمزور ہو گی بلکہ ریاستی سطح پر بھی مزید تنہائی کا شکار ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیں؛اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی سے آؤٹ، پی ٹی آئی کے دیگر 08 ارکان، ایک سینیٹر نااہل قرار
پاکستان تحریکِ انصاف کا یومِ آزادی پر احتجاج کا اعلان ایک واضح سیاسی اشارہ ہے کہ عمران خان کی رہائی پارٹی کی سب سے بڑی ترجیح ہے اور وہ اسے سیاسی محاذ پر ایک اہم مسئلہ بنا چکے ہیں۔ اس احتجاج کی کامیابی یا ناکامی پاکستان کی سیاسی مستقبل کے لیے اہم نتائج رکھتی ہے، جو ملک کی جمہوری صحت اور سیاسی استحکام پر اثر ڈالے گی۔