2023 سے انڈیا نے انٹرنیٹ پر سخت نگرانی شروع کی ہے۔ حکومت نے سرکاری اہلکاروں کو ہٹانے کے احکامات دینے کا اختیار دیا ہے جو براہ راست ٹیکنالوجی کمپنیوں کو بھیجے جاتے ہیں،ایکس کا کہنا ہے کہ انڈیا کی یہ کارروائیاں غیر قانونی اور آزادی اظہار رائے کے خلاف ہیں۔ حکومت نے پولیس اور سرکاری اداروں کو تنقید کو دبانے کے لیے زیادہ اختیارات دیے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جنوری میں ایلون مسک کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر ایک پرانی پوسٹ انڈین شہر ساتارا کی پولیس کے لیے تشویش کا باعث بنی۔ یہ پوسٹ 2023 میں لکھی گئی تھی اور ایک ایسے اکاؤنٹ سے آئی تھی جس میں حکمران جماعت کے ایک سینئر سیاستدان کو “بیکار” قرار دیا گیا تھا۔
انسپکٹر جیتندرا شاہانے نے ایک “محرمانہ” مواد ہٹانے کے نوٹس میں لکھا کہ یہ پوسٹ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کر سکتی ہے۔ اس پوسٹ کو اب تک آن لائن رکھا گیا ہے اور اسی طرح کے سینکڑوں مواد کو ایکس نے مارچ میں انڈین حکومت کے خلاف دائر مقدمے میں حوالہ دیا ہے۔ مقدمے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کو چیلنج کیا گیا ہے۔
انڈین حکومت کا موقف ہے کہ یہ اقدامات غیر قانونی مواد کو روکنے اور آن لائن جوابدہی کے لیے ضروری ہیں۔ حکومت کے مطابق کئی بڑی ٹیک کمپنیاں اس کی حمایت کرتی ہیں، لیکن میٹا اور گوگل نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ایلون مسک نے پہلے بھی کئی ممالک میں حکومتی مطالبات کے خلاف موقف اپنایا ہے۔ بھارت میں دائر مقدمہ انٹرنیٹ سنسرشپ کے قوانین کو چیلنج کرتا ہے، جہاں ایکس کے کئی صارفین ہیں۔

مسک نے 2023 میں کہا تھا کہ بھارت میں سرمایہ کاری کے مواقع زیادہ ہیں اور مودی نے انہیں یہاں آنے کی دعوت دی تھی۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، مقدمے کے دستاویزات اور پولیس اہلکاروں کے انٹرویوز سے معلوم ہوا ہے کہ ہٹانے کے احکامات میں کئی قسم کے مواد شامل ہیں، جن میں غلط معلومات کے علاوہ سیاسی کارٹونز بھی شامل ہیں جو وزیر اعظم یا سیاستدانوں کی غیر سازگار تصویر پیش کرتے ہیں۔
ایکس اور بھارتی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے معاملے پر تبصرہ نہیں کیا۔ مودی کے دفتر نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
ایلون مسک اور نریندر مودی کے درمیان ذاتی تعلقات میں کوئی خرابی ظاہر نہیں ہوئی۔ یہ تنازعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب مسک اپنی کمپنیوں ٹیسلا اور اسٹار لنک کو بھارت میں بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔