چینی حکام مچھر کے ذریعے پھیلنے والی چکنگنیا وائرس سے نمٹنے کے لیے ڈرونز، جرمانے اور جال کا استعمال کر رہے ہیں جس نے ہزاروں افراد کو متاثر کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ چین میں چکنگنیا کا سب سے بڑا پھیلاؤ ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے سیزر لوپیز کیمچو کا کہنا ہے کہ چکنگنیا پہلے کبھی چین کے مینلینڈ میں نہیں پایا گیا جس کا مطلب ہے کہ زیادہ تر آبادی میں اس کے خلاف کوئی قدرتی مدافعت نہیں تھی جس کی وجہ سے وائرس کی تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت بڑھ گئی۔
چکنگنیا وائرس مچھروں کے ذریعے منتقل ہوتا ہے اور اس کے اثرات میں بخار اور جوڑوں میں درد شامل ہوتے ہیں۔
چین کی ریاستی ٹیلی ویژن نے شہر کی گلیوں، رہائشی علاقوں، تعمیراتی سائٹس اور ان مقامات پر جہاں لوگ مچھروں سے متاثر ہو سکتے ہیں، کیمیکلز کے چھڑکاؤ کو دکھایا ہے۔
اس کے علاوہ بارش اور بلند درجہ حرارت نے بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں حکام نے مچھروں کی انڈے دینے والی جگہوں کو تلاش کرنے کے لیے ڈرونز کا استعمال شروع کر دیا ہے۔

چینی حکام نے ان لوگوں پر جرمانے عائد کرنے کی دھمکی دی ہے جو برتنوں میں سے پانی نہیں نکالتے اور ان افراد پر 10,000 یوآن (1,400 امریکی ڈالر) تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ ایسے افراد کی بجلی منقطع کی جا سکتی ہے۔
امریکا نے چین کے صوبہ گوانگ ڈونگ، جہاں فوشان واقع ہے کے لیے سفر کی احتیاطی ہدایات جاری کی ہیں۔ امریکی حکام نے چین میں چکنگنیا وائرس کی بڑھتی ہوئی صورتحال پر شہریوں کو اضافی احتیاط برتنے کی درخواست کی ہے۔
چین میں 2003 کے ایس اے آر ایس کے پھیلاؤ کے بعد سے حکام نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ اس بار فوشان کے مریضوں کو کم از کم ایک ہفتہ ہسپتال میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے اور حکام نے مختصر وقت کے لیے دو ہفتے کا گھر پر قرنطینہ بھی نافذ کیا تھا مگر بعد میں یہ پابندی ہٹا دی گئی کیونکہ یہ وائرس انسانوں سے انسانوں تک نہیں پھیلتا۔
چینی حکام نے مچھروں کے لاروا کو کھانے والے مچھلیوں اور اس وائرس کو منتقل کرنے والے مچھروں کو کھانے والے بڑے مچھروں کا استعمال کرتے ہوئے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششیں بھی کی ہیں۔
مزید پڑھیں: ’غیر معمولی اعزاز‘، فیلڈ مارشل عاصم منیر آئندہ چند روز میں امریکا کا ایک اور دورہ کریں گے
چینی حکومت نے اس بحران کو روکنے اور عوامی اور عالمی تنقید سے بچنے کے لیے قومی سطح پر اقدامات کیے ہیں۔ متعدد اجلاس کیے اور نئے پروٹوکول اپنائے ہیں تاکہ اس وائرس کے پھیلاؤ کو فوری طور پر روکا جا سکے۔
واضع رہے کہ بدھ تک وائرس کے 7,000 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر متاثرہ افراد جنوبی چین کے فوشان شہر سے ہیں جو ہانگ کانگ سے تقریباً 170 کلومیٹر دور ہے۔ نئے کیسز کی تعداد آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے۔