Follw Us on:

ٹرمپ-پیوٹن ملاقات اور زیلنسکی کا اٹل مؤقف، کیا امریکی صدر امن قائم کروا پائیں گے؟

مادھو لعل
مادھو لعل
Whatsapp image 2025 08 10 at 12.16.45 am
ہم اپنی زمین قابضین کو کبھی نہیں دیں گے۔ (فوٹو: فائل)

دنیا کی سیاسی سرخیوں میں ایک نیا باب رقم ہونے والا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان 15 اگست 2025 کو امریکی ریاست الاسکا میں ہونے والی متوقع ملاقات نے جنگ زدہ یورپ میں امن کی اُمید جگا دی ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر روسی صدر اُن سے آمنے سامنے مذاکرات کر رہے ہیں۔

یہ تاریخی مل بیٹھک، سرد جنگ کے زمانی احساس سے بھرپور الاسکا میں ہو رہی ہے، جہاں سے چند گھنٹوں کی پرواز کے بعد روسی سرزمین شروع ہوتی ہے۔ کریملن نے اس ملاقات کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس میں عالمی سلامتی، توانائی کے بحران، اسلحہ میں کمی اور روس-یوکرین تنازع کے حل جیسے پیچیدہ موضوعات زیرِ بحث آئیں گے۔

عوامی و سیاسی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا ٹرمپ دونوں ممالک کے مابین مسائل پر امن طریقے سے حل کروا سکیں گے اور کیا امریکی صدر کی امن کے لیے یہ ایک نئی خواہش ہے یا پھر عالمی امن پرائز کو ایک اور کوشش ہے؟

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ عالمی امور و ایڈوکیٹ رانا محمد علی کہتے ہیں کہ اپنی دوسری عہدِ صدارت کے ابتدائی چند مہینوں میں ہی امریکی صدر نے اپنی نوبل امن پرائز کی خواہش کو واضح کردیا ہے، وہ بارہا بار کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے کئی ممالک کے درمیان جنگ بندی کرائی ہے، مگر انہیں عالمی امن انعام نہیں دیا گیا، جوکہ واضح کرتا ہے کہ انہیں امن سے زیادہ انعام کی فکر ہے اور یہ ساری کوششیں اسی کے حصول کے لیے کی جارہی ہیں۔

امریکی صدر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر اعلان کیا کہ الاسکا میں 15 اگست کو ایک انتہائی اہم ملاقات ہو رہی ہے اور مزید تفصیلات جلد سامنے آئیں گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی منظرنامے میں طاقت کے توازن پر اِس گفتگو کے اثرات گہری نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اعلانِ ملاقات کے بعد سخت اور پُرجوش بیان دیا۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین کو شامل کیے بغیر کوئی بھی امن معاہدہ، امن کے خلاف ہوگا، ہم اپنی زمین قابضین کو کبھی نہیں دیں گے۔

ایڈوکیٹ رانا محمد علی کہتے ہیں کہ ایک طرف ٹرمپ نے خود کو امن کا خیرخواہ کہا تھا دوسری طرف انہوں نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر حملہ کیا تھا کہ انہیں ڈر ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے بالکل قریب ہے، غزا کو لے کر بھی ان کا مؤقف واضح ہے، وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ پر قبضہ کرنے کے حامی نظر آتے ہیں۔ ایسے میں ان کا خودکو امن کو خیرخواہ کہنا تشویشناک ہے۔

یہ بیان ایک واضح پیغام ہے کہ کیف کسیبھی سفارتی معاہدے میں اپنی خودمختاری اور ارضی سالمیت چھیننے کی قیمت ادا نہیں کرے گا۔ اس سے قبل زیلنسکی نے واشنگٹن ملاقات کے بعد کہا تھا کہ وہ ٹرمپ کی قیادت میں جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کیا ےتھا کہ یہ تعاون تعمیری ہونا چاہیے۔  انہوں نے یوکرین کی قیمتی معدنیات پر امریکی مفادات کی شراکت کے معاہدے کی بھی آمادگی ظاہر کی تاکہ خود کفالت اور باگیتی ترقی جاری رہ سکے۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نوجوان صحافی ضیاء حسین لودھی کہتے ہیں کہ 15 اگست کو امریکی و روسی صدور کے درمیان ہونے والی  اس ملاقات کو عالمی سفارت کاری میں مثبت قدم کہا جا سکتا ہے، لیکن صورتحال بے حد نازک ہے۔ صفحات سے لکھا جا رہا ہے کہ یہ ملاقات امن کے بجائے ایک اظہاری سفارتی چال کے طور پر بھی ہو سکتی ہے، جہاں روس ٹرمپ کو ایک چھوٹی جنگ بندی کے ذریعے خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو کہ شاید ایک حقیقی حل سے دور ہے۔

ٹرمپ نے ماضی میں یوکرین کے لیے فوجی امداد روکنے یا سکیورٹی گارنٹی کے بغیر مذاکرات کے کسی بھی معاہدے کو غیر محفوظ قرار دیا ہے۔ لندن اور سعودی عرب میں ہونے والی ثالثی کاریاں بھی تنازعہ میں امریکی کردار کے مختلف رخ سامنے لاتی ہیں۔ زیلنسکی نے لندن میں مذاکرات میں امریکا کے شمولیت کو یقینی قرار دیا اور سعودی عرب میں ہونے والی مذاکراتی کوششوں میں یوکرین غیر موجود رہا۔

نوجوان صحافی  کہتے ہیں کہ یہ ملاقات ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے، اگر اِسے سنجیدہ مذاکرات اور عالمی سطح پر قابلِ قبول امن منصوبے میں ڈھالا جائے۔ مگر سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ آیا یوکرین کو مذاکرات کی میز سے باہر رکھ کر کوئی حل نکالا جا سکتا ہے یا نہیں۔ زیلنسکی کے اٹل مؤقف نے عالمی مؤقف کو واضح کر دیا ہے کہ امن کی راہ میں، اس کی زمین کا سودا نہیں ہوگا۔

Zelensky with trump deals
ٹرمپ کی قیادت میں جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ (فوٹو: فائل)

15 اگست کی تاریخ نہ صرف ٹرمپ-پیوٹن ملاقات کا لمحہ ہے بلکہ یورپ اور عالمی سیاسی منظرنامے میں امن کی تلاش کا نیا چپٹر ہے۔ آیا کہ یہ ملاقات امریکی صدر کی جنگ کے مکمل حل کے لیے کوشش ہے یا پھر یہ نوبل امن پرائز حاصل کرنے کی کوئی نئی چال؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

مگر ایک بات تو طے ہے کہ زیلنسکی نے واضح کر دیا ہے کہ یوکرین کی شمولیت کے بغیر کوئی حل قابل قبول نہیں ہوگا۔ عالمی شراکت داری اور شفاف مذاکرات کے بغیر، یہ ملاقات فقط ایک سیاسی شو سے زیادہ ثابت نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کو مستقل حل کیا جائے تاکہ مزید جانیں نہ جاسکیں۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس