Follw Us on:

’غزہ کے سب سے بہادر صحافیوں میں سے ایک‘، اسرائیلی فضائی حملے میں الجزیرہ کا صحافی شہید ہوگیا

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Gaza firing .
غزہ حکام اور الجزیرہ کے مطابق اسپتال کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس حملے میں مزید دو افراد بھی مارے گئے۔ (فوٹو: رائٹرز)

اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے غزہ میں ایک فضائی حملے کے دوران الجزیرہ کے صحافی کو شہید کیا جو بقول فوج ایک حماس سیل کا سربراہ تھا، تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہیں غزہ جنگ پر فرنٹ لائن رپورٹنگ کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور اسرائیل کے دعوے کے شواہد موجود نہیں۔

28 سالہ انس الشریف ان چار الجزیرہ صحافیوں اور ایک اسسٹنٹ میں شامل تھے جو غزہ سٹی کے مشرقی علاقے میں الشفا اسپتال کے قریب ایک خیمے پر حملے میں شہید ہوئے۔

غزہ حکام اور الجزیرہ کے مطابق اسپتال کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس حملے میں مزید دو افراد بھی مارے گئے۔

الجزیرہ نے انس الشریف کو “غزہ کے سب سے بہادر صحافیوں میں سے ایک” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ “غزہ پر قبضے کی تیاری میں سچ بولنے والی آوازوں کو خاموش کرنے کی ایک مایوس کن کوشش” ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ الشریف حماس سیل کے سربراہ تھے اور “اسرائیلی شہریوں اور فوجی دستوں پر راکٹ حملوں کی منصوبہ بندی” میں ملوث تھے۔ فوج نے اس کے لیے غزہ سے برآمد ہونے والی انٹیلیجنس اور دستاویزات کو شواہد کے طور پر پیش کرنے کا دعویٰ کیا۔

Gaza firing
حماس کا کہنا ہے کہ یہ قتل ممکنہ طور پر اسرائیلی فوجی کارروائی کے آغاز کا اشارہ ہے۔ (فوٹو: رائٹرز)

الجزیرہ اور صحافیوں کی عالمی تنظیموں نے اس حملے اور الزامات کی مذمت کی۔ الجزیرہ کے مطابق دیگر جاں بحق صحافیوں میں محمد قریقیہ، ابراہیم زاہر اور محمد نوفل شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ایرین خان اور ایک پریس فریڈم گروپ پہلے ہی خبردار کر چکے تھے کہ الشریف کی جان ان کی رپورٹنگ کے باعث خطرے میں ہے۔ ایرین خان نے پچھلے ماہ کہا تھا کہ اسرائیل کے الزامات غیر مصدقہ ہیں۔

الجزیرہ کے مطابق الشریف نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام چھوڑا تھا جو ان کی موت کی صورت میں شائع کیا جانا تھا، جس میں لکھا تھا: “…میں نے کبھی بھی سچائی کو بغیر تحریف یا مسخ کیے پہنچانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، امید ہے کہ خدا ان لوگوں کا گواہ ہوگا جو خاموش رہے۔”

گزشتہ اکتوبر میں اسرائیلی فوج نے الشریف کو ان چھ غزہ صحافیوں میں شامل کیا تھا جن پر حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد کے رکن ہونے کا الزام لگایا گیا، اور ایسے دستاویزات کا حوالہ دیا تھا جن میں تربیتی کورس مکمل کرنے والوں اور تنخواہوں کی فہرست شامل تھی۔ اس وقت الجزیرہ نے اسرائیلی دعوے کو “جھوٹا اور من گھڑت” قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) نے کہا کہ اسرائیل نے اپنے الزامات کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا۔ تنظیم کی مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ کی ڈائریکٹر سارہ قدہ نے کہا: “صحافیوں کو بغیر قابل اعتماد شواہد کے جنگجو قرار دینے کا اسرائیلی رویہ اس کے ارادوں اور آزادی صحافت کے احترام پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔”

Gaza.
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ غزہ میں حماس کے گڑھ ختم کرنے کے لیے نئی کارروائی شروع کریں گے۔ (فوٹو: رائٹرز)

انس الشریف، جن کے ایکس (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر پانچ لاکھ سے زائد فالوورز تھے، نے اپنی شہید ت سے چند منٹ قبل پوسٹ کیا تھا کہ اسرائیل غزہ سٹی پر دو گھنٹے سے شدید بمباری کر رہا ہے۔

حماس کا کہنا ہے کہ یہ قتل ممکنہ طور پر اسرائیلی فوجی کارروائی کے آغاز کا اشارہ ہے۔ حماس کے بیان میں کہا گیا: “صحافیوں کا قتل اور باقی ماندہ کو خوفزدہ کرنا اس بڑے جرم کی تیاری ہے جو قابض قوت غزہ سٹی میں کرنے جا رہی ہے۔”

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ غزہ میں حماس کے گڑھ ختم کرنے کے لیے نئی کارروائی شروع کریں گے، جہاں 22 ماہ سے جاری جنگ کے باعث بھوک کا بحران شدید تر ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انڈیا کا تین ماہ بعد جنگ میں پاکستان کے چھ طیارے مار گرانے کا دعویٰ، کیا یہ مودی کا اقتدار بچانے کی کوشش ہے؟

الجزیرہ نے کہا: “انس الشریف اور ان کے ساتھی غزہ کی المناک حقیقت دنیا تک پہنچانے والی آخری بچی ہوئی آوازوں میں سے تھے۔”

حماس کے زیر انتظام غزہ حکومت کے میڈیا آفس کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 237 صحافی شہید  ہو چکے ہیں، جبکہ CPJ کا کہنا ہے کہ غزہ تنازع میں کم از کم 186 صحافی مارے گئے ہیں۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس