چینی بحران کی وجوہات پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت اجلاس میں چیئرمین کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان ڈاکٹر کبیر سدھو نے بریفنگ دی۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ نے گزشتہ سال گنے کی پیداوار، دستیاب ذخائر اور چینی کی پیداوار کا درست تخمینہ نہیں دیا تھا، غلط تخمینوں کی بنیاد پر حکومت نے چینی کی برآمد کی اجازت دی جس سے مقامی ذخائر ضرورت سے کم رہ گئے۔
ڈاکٹر کبیر سدھو نے کہا کہ فیصلہ سازی کے لیے آزاد اور شفاف ڈیٹا ضروری ہے، اور یہ فیصلہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے فراہم کردہ اعداد و شمار پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ کمپٹیشن کمیشن شوگر سیکٹر ریفارم کمیٹی کے لیے تجاویز تیار کر رہا ہے اور 2008-09، 2015-16 اور 2019-20 کے چینی بحرانوں کی وجوہات پر بھی بریفنگ دی گئی۔

کمیشن کے مطابق ماضی کے تمام بحرانوں میں برآمدات کی اجازت دینے سے سپلائی محدود کی گئی، جبکہ 2010 اور 2021 میں شوگر سیکٹر کارٹل کے خلاف احکامات جاری ہوئے۔ 2009-10 کی انکوائری میں کارٹلائزیشن کے واضح شواہد ملے لیکن 2010 کا فیصلہ آج تک منظر عام پر نہیں آیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے 2021 تک حکم امتناع جاری رکھا اور معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ 2021 کے فیصلے کو کمپٹیشن ٹریبونل نے دوبارہ سماعت کے لیے کمیشن کو واپس بھیج دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انڈیا کا تین ماہ بعد جنگ میں پاکستان کے چھ طیارے مار گرانے کا دعویٰ، کیا یہ مودی کا اقتدار بچانے کی کوشش ہے؟
وزیر خزانہ نے اجلاس میں کہا کہ شوگر سیکٹر کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کر دیا جائے گا اور اس کے بعد کمپٹیشن کمیشن کا کردار مزید بڑھ جائے گا۔
انہوں نے ہدایت کی کہ تحقیقات میں معاونت کے لیے دیگر اداروں سے ڈیٹا کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔